کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 112
حدیث میں سیر ہوکر کھانے کے جواز کی دلیل ہے۔وہ روایات جن میں سیر ہوکر کھانے کے مکروہ ہونے کا بیان ہے، وہ باقاعدگی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے سیر ہوکر کھانے سے متعلق ہے۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے دل سخت ہوجاتا ہے اور غریبوں و محتاجوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔ اس جملہ میں سوال سے مراد یہ ہے کہ ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ یہاں پر سوال سے مراد ان نعمتوں کا شمار کرنا اور ان کا احسان جتلانا ہے۔ اور نعمتوں کی وجہ سے کرامت کا اظہار ہے۔ توبیخ سرزنش اور محاسبہ مقصود نہیں ۔ فوائدِ حدیث: ٭ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس دنیا کے کم ہونے،اور بھوک و پیاس تنگدستی کی آزمائشوں کا بیان ہے۔ ٭ اس حدیث میں انسان کے لیے پیش آمدہ پریشانیوں اور مصائب کے ذکر کرنے کے جواز کابیان ہے۔ جوکہ بطور شکوہ نہیں بلکہ صبر دلانے اور تسلی دینے کے لیے ہونا چاہیے۔ ٭ اس حدیث میں عورت کے لیے کسی اجنبی کا کلام سننے اوربوقت ضرورت اس سے بات چیت کرنے کا جواز ہے۔ ٭ اس حدیث میں ظاہری نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے اور ایسے ہی متوقع طور پر کسی پیش آنے والی پریشانی کے ختم ہونے پر اور دیگر احوال میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے مستحب ہونے کا بیان ہے۔ ٭ اس حدیث میں اس امر کے مستحب ہونے کا بیان ہے کہ اگر مہمان کے متعلق کسی فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اس کی تعریف و توصیف بیان کرے۔ اوراگر اس کا خوف یا اندیشہ ہو توپھر مہمان کے منہ پر اس کی تعریف نہ کرے۔ ٭ اس حدیث میں اس انصاری کی فضیلت ہے کہ اس نے انتہائی مختصراور خوبصورت الفاظ میں فی البدیہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی۔