کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 110
٭ ’’انصاری کی بیوی نے دیکھا تو مرحبا اور خوش آمدید کہا…‘‘ ’’اھلًا وسھلًا و مرحبا‘‘ عربی زبان کے الفاظ ہیں جوکہ مہمان آنے کی خوشی میں بطور فرحت وسرور اور عزت و اکرام کے بولے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی عزت و احترام کرے۔‘‘ اس جملہ میں عورت کے لیے کسی اجنبی کا کلام سننے اوربوقت ضرورت اس سے بات چیت کرنے کا جواز ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی عورت کے لیے اس بات کا جواز بھی ہے کہ جس انسان کا گھر میں داخل ہونا شوہر کو نا پسندیدہ نہ ہو، اسے اپنے گھر میں جانے کی اجازت دے۔ مگر ان کے ساتھ ایسے تنہائی میں نہ بیٹھے جسے شریعت نے حرام کیا ہو۔ ’’ میرے مہمانوں سے زیادہ کسی کے مہمان معزز نہیں ‘‘ اس جملے میں کئی فوائد ہیں : ٭ ظاہری نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنا۔اور ایسے ہی متوقع طور پر کسی پیش آنے والی پریشانی کے ختم ہونے پر اور دیگر احوال میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنی چاہیے۔ ٭ مہمان کے سامنے اس کی آمد پر خوشی اور فرحت و انبساط اور سرور کااظہار۔ اور مہمان کے منہ پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کا بیان۔ ٭ اگر مہمان کے متعلق کسی فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اس کی تعریف و توصیف بیان کرنے کا جواز۔ اگر اس کا خوف یا اندیشہ ہو توپھر مہمان کے منہ پر اس کی تعریف نہ کرے۔ ٭ اس حدیث میں اس انصاری کی فضیلت ہے ؛اور اس کی فصاحت وبلاغت کا بیان ہے کہ اس نے انتہائی مختصراور خوبصورت الفاظ میں فی البدیہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی۔ ٭ ’’کھجوروں کا ایک خوشہ لے کر آئے جس میں کچی اور پکی اور خشک اور تازہ کھجوریں تھیں ‘‘صحابی اس قسم کی مختلف کھجوروں والاخوشہ اس لیے لے کر آئے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم