کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 104
((اللَّهُمَّ، أَطْعِمْ مَن أَطْعَمَنِي، وَأَسْقِ مَن أَسْقَانِي)) ’’ اے اللہ تو اسے کھلا جو مجھے کھلائے اور تو اسے پلا جو مجھے پلائے۔‘‘ اس جملہ میں احسان کرنے والے اور خدمت گاراور نیکی و بھلائی کا کام کرنے والے کے لیے دعا ہے۔اس جملہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق، حلم بردباری؛ صبر، شرافت ِ نفس اور پیاری عادت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپ لوگوں کو کس طرح معاف کرتے تھے کہ آپ نے اپنے حصہ کے دودھ کے بارے میں نہیں پوچھا۔ ’’میں نے دیکھا کہ اس میں ایک تھن دودھ سے بھرا پڑا ہے‘‘ اس جملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور آپ کی برکت کے آثار کا بیان ہوا ہے۔ ’’… یہاں تک کہ دودھ کی جھاگ اوپر تک آگئی‘‘ اس سے مراد جانور سے دودھ نکالتے وقت پیدا ہونے والی جھاگ ہے۔ ’’… اے مقداد یہ تیری ایک بری عادت ہے‘‘ اس سے مقصود یہ ہے کہ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ اس بات سے بہت خوف زدہ تھے کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بد دعا نہ کردیں ۔ اس لیے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا دودھ پی لیا تھا۔ اس فعل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک طرح سے تکلیف بھی ہوئی تھی۔مگر جب آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیر ہوجانے کا پتہ چلا اور یہ کہ دعائے نبوت آپ کے حق میں قبول ہوچکی ہے تو آپ خوش ہوئے اور اس انداز میں شدت کے ساتھ ہنس پڑے کہ زمین پر گر گئے۔اس لیے کہ آپ کا وہ خوف اور اندیشہ ختم ہوگیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے بددعا نہ کر دیں ۔ اور اس کی جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے حاصل ہونے والی خوشی نے لے لی تھی۔ کہ اللہ تعالیٰ اسے کھلائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلائے، اور اسے پلائے جو آپ کو پلائے۔ اور یہ خدمت حضرت مقداد کے ہاتھوں سے انجام پائی۔ اور پھر آپ کے ذریعہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ بھی ظاہر ہوگیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنے فعل کی بری ابتداء اور حسن ِ انجام پر تعجب بھی ہورہا تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: