کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 52
أنا عَبْدُكَ:… میں تیرا بندہ ہوں ۔ یعنی تیری مخلوق اور تیرا غلام ہوں ۔ یہ انسان اپنی حالت کا بیان کررہا ہے جیسا کہ آگے فرمایا: وأنا على عَهْدِكَ ووَعْدِكَ:…اور میں تیرے ساتھ کیے گئے عہد اوروعدے پر قائم ہوں ۔ یعنی اس عہد میثاق کو پورا کررہا ہوں ۔ اور میں تیرے وعدہ پر یقین رکھتا ہوں جو کہ تو نے یوم حشر میں تمام مخلوقات کو جمع کرنے کے لیے کیا ہوا ہے۔ اور وہ وعدہ جو تو نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی زبان مؤمنین کے ساتھ انہیں ثواب دینے کے لیے کیا ہوا ہے۔ ما اسْتَطَعْتُ:…جتنی بھی مجھ میں ہمت واستطاعت ہے۔علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :انسان یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں اسی عہدپر ہوں جوتجھ سے کیا ہے، اور جو میں نے تیرے ساتھ تجھ پر ایمان لانے اور اخلاص کے ساتھ تیری عبادت کرنے کا وعدہ کیا ہے اس پر اپنے مقدور بھر قائم ہوں ۔ اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ میں اس عہد پر قائم ہوں جو میں نے تیرے ساتھ کیا ہے ؛ اور اسے مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوں ۔ اور اس پر اجر و ثواب کے ملنے کے لیے تیرے وعدے کامنتظر ہوں ۔ اس کے ساتھ ہی ’’ استطاعت ‘‘ یعنی طاقت کے ہونے کی شرط لگائی ہے۔ جس میں انسان کی طرف اللہ کے حق کی ادائیگی میں اپنی عاجزی و کمزوری اور کوتاہی کا اعتراف ہے۔یعنی اے اللہ ! میں ایسے تیری عبادت نہیں کرسکتا جیسا کہ عبادت کرنے کا حق ہے، مگر اپنے مقدور بھر کوشش کرتا ہوں ۔اور یہ بھی کہا گیاہے کہ اس عہد سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے یوم ازل میں جب بندوں کوچینونٹیوں کی شکل میں نکالا تو ان سے عہد لیا تھا : ﴿ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ (الأعراف:۱۷۲) ’’اورخود کوان پر گواہ کیا (ان سے فرمایا )کیا میں تمھارامالک نہیں ہوں ۔‘‘ تو اس موقع پر تمام لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا، اور اس کی وحدانیت کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ اور اس وعدہ کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی