کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 41
پھر اس کے بعد بڑی عمر سے پناہ مانگی گئی۔یعنی عمر کا وہ مرحلہ جب انسان کی توانائیاں جواب دے جاتی ہیں اور وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اور اس سے عبادت کے وظائف فوت ہوجاتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد بری عمر سے پناہ مانگی گئی جس میں انسان زمین پر گرے ہوئے کپڑے کی طرح ہوجاتا ہے جس سے کسی خیر کی امید نہیں کی جاسکتی۔ پھر اس کے بعد دنیا کے فتنہ سے پناہ مانگی گئی۔یعنی دنیا کی محبت اور اس کی آزمائش کا فتنہ۔ پھر اس کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگی گئی۔ اس سے مراد یا تو بذات خود قبر کا عذاب ہے، یا پھر ان اسباب سے پناہ جن کی وجہ سے قبر کا عذاب واجب ہوتا ہے۔ جب صبح کرتے تو بھی یہی کلمات کہتے: یعنی وہی کلمات دھراتے جو کہ شام کو کہا کرتے تھے۔ بس وہاں پر شام کے لفظ ’’أمسینا ‘‘کے بجائے صبح کے لفظ ’’ أصبحنا‘‘ کا استعمال کیا کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث عبودیت کے اظہار، اور تصرفات ربوبیت کی طرف انسان کے محتاج و فقیر ہونے کی دلیل ہے۔ اور یہ کہ خیر و شر ہر طرح سے صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اور بے شک انسان کے اختیار میں اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس حدیث میں امت کے لیے تعلیم بھی ہے تاکہ وہ دعا کرنے کے آداب سیکھ سکیں ۔‘‘ فوائدِ حدیث: ٭ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے صبح و شام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر۔فرمان الٰہی ہے: ﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا﴾ (طہ:۱۳۰) ’’اپنے مالک کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے۔‘‘ ٭ ہر وقت لا إلَهَ إلّا اللّٰهُ کا ورد کرتے رہنا۔