کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 39
ہیں : ’’ یعنی ہمیں معرفت حاصل ہوگئی کہ ملک سارے کا سارا اللہ کے لیے ہے، اور تمام تر تعریف صرف ایک اللہ کے لیے ہے کسی اور کے لیے نہیں ۔ رَبِّ أَسْأَلُكَ:…اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کافی و وافی نصیب اور ٹھکانے کاجو کہ اس رات کی بہترین چیزوں میں سے ہے۔ خَيْرَ ما في هذِه اللَّيْلَةِ: …یعنی بذات خود اس رات کی خیر اور اس میں حاصل ہونے والے امور کی خیر۔ علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اس سے مراد یہ ہے کہ یعنی اس چیز کی خیر کا سوال کرتا ہوں جو اس رات میں پیدا ہوتی ہے۔ خَيْرَ ما فِیْہَا:…اور جو کچھ اس رات میں واقع ہوتا ہے، اور جوکچھ اس رات میں سکون پکڑتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿ وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ﴾ (الأنعام:۱۳) ’’اور جتنی چیزیں رات اوردن میں بستی ہیں وہ سب اسی (اللہ) کی ہیں ۔‘‘ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ یعنی جس چیز کا تونے ارادہ کیا ہے کہ وہ ظاہری وباطنی کمالات تیری خاص مخلوق کے لیے اس رات میں واقع ہوں ۔ اور ان بہترین عبادات کے واقع ہونے کا جن عبادات کو بجالانے کا حکم تونے ہمیں دیاہے۔یا ان بہترین موجودات کا سوال کرتا ہوں جو کہ اس رات کے ساتھ ملے ہوئے ہوں اور ان تمام چیزوں کی خیر کا سوال جو کہ اس وقت تک موجود ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رات کی خیرسے مراد ہے کہ : جوکچھ انسان بذات خود اس رات میں عمل کرے۔ اس ’’رات کے اندر جو کچھ خیر ہے ‘‘سے مراد اس رات میں واقع ہونے والے احداث و واقعات ہیں ۔ وَأَعُوذُ بكَ مِن شَرِّ ما في هذِه اللَّيْلَةِ وَشَرِّ ما فِیْہَا: …(میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس رات کی برائی سے اور جوکچھ اس رات میں ہے اس کی برائی سے)۔مسلم شریف کی روایت میں ہے: