کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 287
سند سے روایت نقل کی ہے ؛ وہ کہتے ہیں : ولید بن عبد الملک نے عثمان بن حیان کی طرف خط لکھاکہ حسن ابن حسن کو لوگوں کے سامنے سو کوڑے لگائے جائیں ۔ راوی کہتا ہے: حسن بن حسن کی طرف آدمی بھیج کر بلایا گیاتو حضرت علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : اے میرے چچا زاد ! ’’ دعا فرج ‘‘[کشادگی/نجات] کے کلمات سے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو بچا لے۔پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس میں ہے : انہوں نے دعا کی۔ جب عثمان نے آپ کی جانب اپنا سر اٹھایا توکہا : میں دیکھتا ہوں کہ اس آدمی کے متعلق جھوٹ بولا گیا ہے۔اس آدمی کو چھوڑ دو، اور میں امیر المؤمنین کوعذر لکھ بھیجتا ہوں ۔‘‘ اور آپ کو چھوڑدیاگیا۔ نسائی میں روایت ہے : جب عبد اللہ بن جعفر نے اپنی بیٹی کی شادی کی تو اس سے کہا : جب تمہیں کوئی پریشانی پیش آئے تو قبلہ رخ ہو کر یہ دعا کرنا : ((لا إلَهَ إلّا اللّٰهُ الحليمُ الكَرِيمُ ، سُبحانَه تَبارَكَ وتَعالى ربُّ العرشِ العظيمِ ، والْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ)) حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : حجاج نے میری گرفتاری کے لیے آدمی بھیجے، میں نے یہ دعا کی،تو حجاج نے کہا : ’’ اللہ کی قسم میں نے تیری طرف آدمی اس لیے بھیجے تھے کہ میں تجھے قتل کرنا چاہتا تھا۔ اور آج کے دن تومجھے سب سے بڑھ کر محبوب ہوگیاہے۔‘‘ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس نے کہا: ’’ اب آپ اپنی ضرورت کے متعلق سوال کریں ۔‘‘ ایسے ہی سنن ترمذی میں پریشانی کے اوقات کی دعاؤں میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’میں تجھے ایسے کلمات سکھاتا ہوں جو کہ تم پریشانی کے وقت کہا کرو۔ [وہ کلمات یہ ہیں ] : ((اللّٰهُ اللّٰهُ ربِّي لا أشرِكُ بِهِ شيئًا)) ’’ اللہ، اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا۔‘‘