کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 284
صفت ہے۔ [اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم بیان ہوئی ہے ] علماء کرام رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں : ’’حلیم وہ ہے جو قدرت ہونے کے باوجود سزا دینے میں تاخیر کرے (مہلت دے)۔اورعظیم وہ ہے جس کی عظمت ہر ایک پر ہو، اور اس کے سامنے کوئی چیز اس سے بڑی نہ ہو۔ اور کریم کا معنی ہے مہربان نوازنے والا۔
علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس دعا کو رب ذوالجلال کی تعریف سے شروع کیا،تاکہ پریشانیاں اور مشکلات دور کرنے کے لیے مناسب ہو۔ اس لیے کہ ربوبیت کا تقاضا یہی ہے۔ اس میں کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ لایا گیا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی وحدانیت پر مشتمل ہے۔اللہ تعالیٰ کی اصلی تنزیہ اور تقدیس یہی ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا بیان ہے، جو کہ اس کی قدرت کے کامل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حلم (بردباری ) کا بیان ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے علم کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ جاہل سے عفو و درگزر بردباری اور جود و کرم کی توقع نہیں کی جاسکتی۔یہ دونوں صفات اکرام کی اصل ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں یوں آیا ہے:
((لا إلَهَ إلّا اللّٰهُ الكَرِيمُ العَظِيمُ ، سبحان ا للّٰه ، تبارك الله ربُّ العرش العظيم، والحمد لله رب العالمين))
اور اس ایک روایت میں اس کے شروع میں ’’ اَلْحَلِیْمُ الْعَظِیْم ‘‘ کے الفاظ بھی ہیں ۔
اور ایک روایت یوں ہے :
((لا إلهَ إلّا اللّٰهُ وحدَه لا شريكَ له العلِيُّ العظيمُ لا إلهَ إلّا اللّٰهُ وحدَه لا شريكَ له الحليمُ الكريمُ))
اور ایک روایت یوں ہے:
((لا إلَهَ إلّا اللّٰهُ الحليمُ الكَرِيمُ ، سُبحانَه تَبارَكَ وتَعالى ربُّ العرشِ العظيمِ ، والْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ))