کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 281
پررکھنا۔ یہ الفاظ: ((أسألُك)): میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ۔دعا کے شروع میں خشوع و خضوع اور تذلل کا اظہار تھا۔ یہ سوال کرنے والوں کے آداب میں سے ہے۔ یہ حالت سوال کا جواب ملنے کے زیادہ قریب کی ہے۔ خاص طور پر جب مسؤل(جس سے سوال کیا جارہا ہو) وہ کریم اور مہربان بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔ جب اس کے سامنے گریہ وزاری کی جائے، خضوع و تذلل کا اظہار کیا جائے، اورپھر اس سے سوال کیا جائے تووہ فوری طور ویسے ہی پر پورا ہوگا جیسے اس کی شان و کرم اور سخاوت کے لائق ہے۔ ((بكلِّ اسمٍ هو لك)): …یعنی تیرے ہر نام کے وسیلہ سے۔ جونام تیرے لیے ہے۔ اس میں غیر اللہ کے اسماء سے احتراز و اجتناب ہے۔ اس لیے کہ غیر اللہ کے نام پر قسم اٹھانا ( اور سوال کرنا ) جائز نہیں ، [بلکہ حرام ہے]۔ ((سمَّيْتَ به نفسَك)):…یہ اپنے سے پہلے جملہ کی تفسیر ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے وہی نام ہوسکتا ہے جو اس نے اپنے لیے رکھا ہو، (کوئی غیر اللہ کانام نہیں رکھ سکتا ۔) أو أنزلتَه في كتابِك: …یعنی اپنے انبیاء کرام میں سے کسی ایک نبی پر اپنی کسی کتاب میں نازل کیا ہو۔ [یہ اشارہ ہے کہ دوسرے سماوی ادیان میں بھی اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔شفیق] أو علَّمتَه أحدًا من خلقِك: …خلق سے مراد اللہ کے انبیاء و مرسلین اور ملائکہ ہیں ۔ أو استأثرتَ به: …یا اسے علم الغیب میں اپنی ذات کے لیے خاص کر رکھا ہو۔ اور اس کو تیرے علاوہ کوئی ایک بھی نہ جانتا ہو۔اور نہ ہی کسی کواس کے متعلق اطلاع ہوسکے۔ یہ سب تقسیم ہے اس فرمان کی ((بكلِّ اسمٍ هو لك )) ’’ ہر اس نام کے وسیلہ سے جو تیرے لیے ہو۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جو اسماء مبارکہ اپنی کتاب میں یا اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کیے ہیں ، ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے اسماء