کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 245
حدیث کے یہ الفاظ: (( ما تَحُولُ به بينَنا وبينَ معاصيكَ ))اس لیے کہ جب بھی انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کرنے کی راہ میں آڑے آتا ہے۔ اسی لیے فرمایا: (( ما تَحُولُ به بينَنا وبينَ معاصيكَ ))’’ ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے۔‘‘ اور حدیث کے الفاظ: ((ومِنْ طاعتِك))’’ اوراپنی فرمانبرداری میں سے …‘‘ہم میں اتنی تقسیم کر دے کہ ((ما تُبَلِّغُنا به جَنَّتَك))’’جو ہمیں تیری جنت تک پہنچا دے۔‘‘جنت کا راستہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے، اس کے محرمات سے بچنے اور اس کی اطاعت بجالانے کی توفیق مل جائے تووہ جہنم کی آگ سے اس کے خوف کی وجہ سے بچ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی وجہ سے جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ((ومِنَ اليقينِ ما تُهَوِّنُ به علينا مُصِيباتِ الدنيا)) ’’اور اتنا یقین میں سے تقسیم کر دے کہ ہم پر دنیا کی مصیبتیں آسان ہو جائیں ۔‘‘ یقین ایمان کے اعلی درجات میں سے ہے۔ اس لیے کہ یہ ایسا مرحلۂ ایمان ہے جس میں کوئی شک و شبہ یا تردد نہیں ہوتا۔ جو کچھ آپ سے غائب ہو اس کے بارے میں بھی ایسے ہی یقین ہوتا ہے جیسا کہ آپ اپنے سامنے کسی موجود اور مشاہد چیز پر ایمان رکھتے ہیں ۔ غیب اس چیز کو کہتے ہیں جس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو، یا اس کے اسماء و صفات سے ہو، یا آخرت کے دن سے ہو۔ یا اس طرح کے دیگر امور سے ہو، پس وہ غیبی امور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہو۔ اس کے سامنے ایسے ہوجاتے ہیں جیسے سامنے رکھی اور دیکھی ہوئی ایک چیز۔ یہ ایمان کا کمال ہے۔ ((ومِنَ اليقينِ ما تُهَوِّنُ به علينا مُصِيباتِ الدنيا)) ’’اور اتنا یقین تقسیم کر دے کہ ہم پر دنیا کی مصیبتیں آسان ہو جائیں ۔‘‘اس لیے کہ دنیا میں بہت سارے مصائب پیش آتے ہیں ۔ مصائب کے بارے میں جب انسان کویقین ہو کہ یہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں ؛ اور ان کی وجہ سے درجات بلند ہوجاتے ہیں ؛ جب