کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 174
ہو تو انسان کو وہاں رک کر اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرنا چاہیے۔اور یہ کہنا چاہیے: ((اللَّهمَّ اجعَلْني مِن أهلِها ... اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ )) ’’ اے اللہ ! مجھے بھی اہل جنت میں سے بنا دے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘ اور جب کسی عذاب کے ذکر والی آیت سے گزرے تو یوں کہے: ((أعوذُ باللهِ مِنْ ذالک أَعُوذُ باللَّهِ مِنَ النّارِ)) ’’میں اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں ، اور میں جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘ اورایسے ہی جب کسی تسبیح والی آیت سے گزرے تو وہاں پر رک کر ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ‘‘ کہے۔یہ تمام امور رات کی (نفل)نماز میں ہیں ۔ اگر فرض نماز میں ایسا کیا جائے تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ، لیکن ایسا کرنا سنت سے ثابت نہیں ۔[1]اور اگر کسی نے ایسا کردیا تو اسے اس سے منع نہ کیا جائے۔ اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے ایسا کرنے کا حکم نہ دیا جائے۔ بخلاف رات کی نفل نماز کے۔ اس لیے کہ تہجد کے لیے افضل ہے کہ انسان ایسے ہی کرے۔ آیت وعید پر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے، اور آیت ِ سوال پر اللہ تعالیٰ سے رحمت کا سوال کرے۔ اور آیتِ تسبیح پر سبحان اللہ کہے۔ ٭ اس حدیث میں بعض سورتوں کو بعض دوسری سورتوں پر مقدم کرنے کا جواز ہے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت نساء کو سورت آل عمران پر مقدم کیا تھا۔ لیکن ایسا کرنا آخری سال سے پہلے تھا۔ آخری سال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورت نساء پر آل عمران کو مقدم کیا کرتے تھے۔ اسی لیے صحابہ کرام نے قرآن کو اسی ترتیب سے مرتب کیا اور
[1] یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے۔ورنہ شریعت میں ہر ایک چیز کا موقع اور طریقہ موجود ہے۔ فرائض میں بھی ان اذکار کی پابندی کی جائے جو کہ سنت سے ثابت ہیں ؛ ورنہ ان سے گریز کیا جائے۔