کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 168
بھی آپ کسی عذاب کے بیان والی آیت پر پہنچتے تو وہاں کچھ دیر کے لیے رک جاتے اور عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے۔ اور پھر اپنے قیام کے برابر لمبا رکوع کرتے ؛ جیسا کہ سنن نسائی کی روایت سے ظاہر ہے۔ سبحانَ ذي الجَبَروتِ والمَلَكوتِ:… جبروت جبر سے ہے جوکہ غلبہ اور تسلط کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور ملکوت، ملک سے ہے۔ اس سے مرادتصرف ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ کامل غلبے والااور مکمل تصرف والا ہے۔ والكِبْرياءِ:… ’’کبر‘‘سے ہے۔ اس کا معنی ہے عظمت۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کمال ذات اور کمال وجود ہے ؛ اوریہ صفت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں بیان کی جاسکتی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کمال ذات ہے اور العَظَمةِ سے مراد کمال صفات ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الكِبْرياءِسے مرادبلندی اور ہر قسم کے عیب سے پاکیزگی ہے اور العَظَمةِ سے مراد قدر و بزرگی میں حدِ احاطہ سے تجاوز ہے۔ان دونوں لفظوں کے درمیان فرق پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں ہے: ’’کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میری تہہ بند ہے، جو کوئی مجھ سے ان دو کے بارے میں جھگڑا کرے میں اسے توڑ کر رکھ دیتا ہوں ۔‘‘[1] ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قیام کے برابر لمبا سجدہ کیا۔پھر سجدہ میں بھی اسی طرح کی دعا کی۔ اور سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے : ’’ اپنے رکوع کے برابر لمبا سجدہ کیا اور سجدہ میں بھی یہی دعا کی۔‘‘ یہ احادیث رکوع اور سجدہ میں اس دعا کی مشروعیت اور رکوع اورسجدہ کے بقدر قیام لمبا ہونے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی فعل اس میں مختلف نوعیت کا ہوتا تھا۔ کبھی آپ بقدر قیام لمبا رکوع اور سجدہ کرتے۔ اس طرح آپ کا قیام، رکوع اورسجدہ برابر
[1] مستدرک حاکم ، ح: ۱۸۷۔