کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 166
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آیت سے میں بھی وہی سمجھا ہوں جو آپ سمجھے ہیں ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح بیان کریں اور استغفار کریں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اور آپ کثرت کے ساتھ اپنے رکوع اور سجدہ میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ((سُبحانَكَ اللَّهمَّ ربَّنا وبحَمدِكَ، اللَّهُمَّ اغفِرْ لي)) اس سے مراد یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات ِ کمال کے ساتھ اس کی حمد و تسبیح بیان کرتے ہیں ، اور اس کی ذات سے ہر قسم کی صفات ِ نقص کی نفی کرتے ہیں ، اور توبہ و استغفار کرتے ہیں ۔ (اور اللہ سے بخشش کا سوال کرتے ہیں )۔ اور ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدہ میں یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے: ((سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ ربُّ الملائكةِ والرُّوحِ)) ’’بہت ہی پاکیزہ، انتہائی مقدس، رب فرشتوں اورروح (جبرائیل) کا۔‘‘ یعنی (اے اللہ !) تو بہت ہی پاک اور منزہ ہے،(اس جملہ میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنے میں مبالغہ ہے )۔اور بے شک اللہ تعالیٰ پاک اور منزہ ہے، وہ فرشتوں کا پروردگار ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے لشکر ہیں ؛ جن کا ہم مشاہدہ نہیں کرسکتے۔جب کہ روح سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں ۔جوکہ فرشتوں میں سب سے افضل ہستی ہیں ۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے رکوع اور سجدہ میں کثرت سے مذکورہ بالا دُعائیں پڑھا کرے۔ فوائدِحدیث : ٭ رکوع اور سجدہ میں ((سُبحانَكَ اللَّهمَّ وبحَمدِكَ)) کہنا بھی جائز ہے۔ ٭ رکوع اور سجدہ میں مغفرت کے لیے دعا کرنا بھی جائز ہے۔ ٭ نمازی کے لیے جائز ہے کہ وہ رکوع اور سجدہ میں کہے: ((سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ ربُّ الملائكةِ والرُّوحِ))