کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 165
خود اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعزیت کی ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد و نصرت آن پہنچی، اور مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔ تو اب آپ کی رحلت کا وقت بھی قریب تر آگیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس سورت سے یہی مراد سمجھے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما عمر میں چھوٹے تھے۔ مگر پھر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کو ساتھ لے کر بڑے بڑے صحابہ کی مجالس میں شریک ہوا کرتے تھے۔ کسی نے کہا: ’’ ایسے کیوں ہے کہ آپ اپنے بیٹوں کو چھوڑ کر انہیں مجلس میں لے کر آتے ہیں ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ ان لوگوں کے سامنے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی فضیلت ظاہر کریں ۔ تو آپ نے ایک دن لوگوں سے پوچھا:اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں : ﴿ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهَ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللّٰهَ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾ (النصر:۱۔۳) ’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !) جب اللہ کی مدد اور فتح آن پہنچی(اورمکہ فتح ہوگیا)۔اور آپ نے (لوگوں کو) دیکھ لیاکہ اللہ تعالیٰ کے دین (یعنی اسلام )میں جو جوق درجوق داخل ہو رہے ہیں ۔آپ تعریف کے ساتھ اپنے مالک کی پاکی بیان کریں اور اس سے بخشش مانگیں بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ کہنے لگے : اس سے مراد یہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد و نصرت آن پہنچی ہے، پس آپ تعریف کے ساتھ اپنے مالک کی پاکی بیان کریں اور اس سے بخشش مانگیں ۔‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا:’’ اے ابن عباس ! تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے فرمایا: ’’ میں کہتا ہوں ، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجل کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح مکہ اور اپنی مددایک نشانی عطا کی تھی۔جب یہ فتح اور مدد مل گئی تو اب آپ کی اجل بھی قریب ہے۔‘‘