کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 154
اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے،اس میں اس کا کوئی بھی شریک نہیں ہے۔پس میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کی سب صرف اور صرف بغیر کسی شریک کے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ۔ یہی کلمہ توحید کا معنی ہے۔ جیسا کہ کہنے والا کہتا ہے : ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ‘‘تو یہ کہنا کہ ’’اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ اس میں نفی اور اثبات ہے۔ (یعنی غیر اللہ کے لیے بندگی کی نفی اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت کا اثبات)اور ’’ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ ‘‘ میں اثبات اور نفی کی تاکید ہے۔ اس لیے کہ ’’وَحْدَہٗ‘‘ بھی ’’اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کے معنی میں ہے۔ اور ’’ لَا شَرِیْکَ لَہٗ‘‘…’’لَا اِلٰہَ‘‘ کے معنی میں ہے۔ پس ’’اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ میں نفی اور اثبات ہے۔ شروع میں نفی ہے اور آخر میں اثبات ہے۔اور ’’وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ‘‘میں اس نفی اور اثبات کی تاکید ہے۔ جب کہ خود اس جملے میں بھی نفی اور اثبات پائے جاتے ہیں ۔ ((وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا أوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ)):…’’ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے، اور میں پہلے فرمانبرداروں میں سے ہوں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کی نماز اللہ کے لیے ہو، اس کی عبادت اللہ کے لیے ہو۔ یہ شرعی حکم ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ (الذاریات:۵۶) ’’اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے پیدا کیے ہیں تاکہ وہ میری عبادت کریں ۔‘‘ یعنی میں انہیں حکم دوں گا اورمنع کروں گا۔ پس ان میں سے بعض کو ان احکام کے ماننے اور اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کی توفیق دی جائے گی۔ اور بعض کو اس کی توفیق نہیں ہوگی۔ ((وَاَنَا أوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ))’’ اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔‘‘اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ہے۔ اس لیے کہ آپ اس خیر الامم امت کے پہلے فرد ہیں ۔ آپ ان سب سے مقدم، پہلے اور ان پر سبقت لے جانے والے ہیں ۔