کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 135
جب کہ اذان کے باقی الفاظ ذکر ہیں تو ان کے لیے مناسب یہی تھا کہ انسان وہی الفاظ دھراتا رہے۔ جب کہ ’’حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ‘‘ اور ’’حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ‘‘میں ایک کام (قیام نماز ) کی دعوت ہے ؛ جس کی طرف مؤذن بلا رہا ہے، اور سننے والے پر اس کی بات ماننا ضروری ہے۔ جس کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوسکتی ہے۔ حدیث کے الفاظ ’’ خلوص دل سے کہے تو یہ جنت میں داخل ہوگا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جب وہ اپنے دل سے شہادتین کے معانی پر اعتقاد رکھتے ہوئے، اور لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ کے معانی پر اپنے دل سے ایمان رکھتے ہوئے یہ کلمات کہے ؛ اور اللّٰہُ اَکْبَرُ معنی کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی قربت کی تلاش میں ان الفاظ کودھرائے تووہ انسان جنت میں داخل ہوجائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان الفاظ کے دھرانے سے ان کی تاثیر دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کہ شہادتین کا اقرار عقیدہ کی تجدید ہے۔ جب انسان کہتاہے: ’’ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ‘‘ تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ میں اعتقاد رکھتا ہوں ، اور اقرار و اعتراف کرتا ہوں کہ حقیقی الوہیت صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہے۔ اور یہ گواہی اسے اس بات پر ابھارے گی کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرے، اور اپنے اعضاء سے غیر اللہ کی عبادت نہ کرے۔ اور ایسے جب انسان کہتا ہے: ’’ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘…’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ یعنی انسان کہنا چاہتا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا اعتراف و اقرار کرتا ہوں ۔ اس اقرار کی وجہ سے اس کے دل میں اتباع نبوت و رسالت کا جذبہ و ولولہ پیدا ہوگا۔ اور جب وہ ’’لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ‘‘ کہے گاتو گویا کہ وہ اس بات کو اپنے پیش نظر لارہا ہے کہ اس کی اپنی کوئی قوت و استطاعت نہیں سوائے اس کے کہ اس کا رب اس کی مدد کرے، اور اسے توفیق دے۔ گویا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے اور نماز کے لیے جانے کی کوئی قوت نہیں رکھتا مگر جب میرا رب مجھے اس کی توفیق اورطاقت دے۔ وہ اللہ ہی جو قوت دیتا ہے اور اس پر قدرت رکھتا ہے۔ جب کہ انسان ایک کمزور اورگنہگار چیز ہے