کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 134
اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ،کہے۔ پھر مؤذن اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ،کہے تو یہ بھی اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ،کہے۔ پھر وہ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ،کہے تو یہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ،کہے۔ پھر وہ حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ ،کہے تو یہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ، کہے۔ پھر وہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ،کہے تو یہ بھی اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ،کہے۔پھر وہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ،کہے تو یہ بھی ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ،خلوص دل سے کہے تو یہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ شرح:…اذان سنتے وقت کی دعا اور ذکر یہ ہے کہ انسان اذان کے کلمات کودھراتا رہے۔یعنی وہ بھی اسی طرح کہے جیسے مؤذن کہہ رہا ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ سوائے ’’حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ‘‘ اور ’’حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ ‘‘کے، ان کے جواب میں ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ کہے۔ حَوْلَ سے مراد حرکت ہے۔ یعنی نہ ہی میری کوئی حرکت ہے اور نہ ہی کوئی قوت و طاقت مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ۔ اور یہ بھی کہاگیاہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ : ’’ خیر حاصل ہونے کے لیے کوئی قوت اور شر و برائی سے بچنے کی کوئی طاقت میری اپنی نہیں ہے سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد کے۔ اور یہ بھی اس کا معنی بیان کیا گیا ہے کہ : ’’ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی طاقت اور اس کی اطاعت پر قدرت وقوت صرف اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ممکن ہے۔ ’’حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ‘‘ اور ’’حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ ‘‘سننے والے کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ ان اعمال کے لیے تمام قدرت و تصرف کو اللہ تعالیٰ کی مشیت ونصرت کی طرف منسوب کردے۔ اس لیے کہ یہ ایسا کام ہے جو اس وقت تک ہونا نا ممکن ہے جب تک اللہ تعالیٰ توفیق نہ دے۔