کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 109
﴿ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ (الحشر:۹) ’’اپنی ذات پر بھی مقدم رکھتے ہیں اگرچہ ان کو تنگی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ ان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ (فتح :۲۹) ’’ وہ آپس میں بڑے ہی رحمدل ہیں ۔‘‘ رہا حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ ’’ ہم بھوک کی وجہ سے گھر سے نکلے ہیں ‘‘ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا: ’’ میں بھی اسی وجہ سے گھر سے نکلا ہوں ، جس وجہ سے تم دونوں نکلے ہو۔‘‘ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اللہ تعالیٰ کی اطاعت مراقبہ میں مشغول رہتے تھے۔ ان لوگوں کو اتنی سخت بھوک لگی جس نے انہیں پریشان و بے چین کردیا، اور عبادت میں ان کی وہ چستی اور لطف اندوزی باقی نہ رہی، اسی وجہ سے انہیں گھر سے نکلنا پڑا تاکہ اس بھوک کا ازالہ کرسکیں ۔یہ اطاعت خداوندی کا کمال اور مراقبۂ نفس کا عروج ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ’’ مجھے بھی اسی چیزنے گھر سے نکالا ہے جس نے…‘‘ اس جملہ میں انسان کے لیے اپنی پریشانی اور دکھ و الم بیان کرنے کا جواز ہے۔ جو کہ بطور شکوہ یا عدم رضامندی کے نہیں ،بلکہ برائے تسلی و صبر کے ہے۔جیسا کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ یاپھر دعا کی تلاش میں یا اس کے ازالہ کے لیے اسباب کے حصول پر تعاون حاصل کرنے کے لیے۔ ایسا کرنا مذموم نہیں ہے۔بلکہ مذموم وہ فعل ہے جس میں شکوہ و شکایت، عدم ِ رضامندی اور گریہ و زاری ہو۔ راوی کا کہنا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے گھر تشریف لے گئے…۔‘‘اس صحابی کو ابو ہیثم کہا جاتا تھا، اور مالک اس کا نام تھا۔ اس حدیث میں اس صحابی کی منقبت اور شرف کا بیان ہے کہ آپ نے اسے یہ شرف بخشا کہ اپنی ضیافت کے قابل سمجھا، اور اس کے گھر تشریف لے گئے۔