کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 108
کے پاس کبھی کبھار کچھ تھوڑا بہت ہوتا، اور کچھ دیر کے بعد وہ بھی ختم ہوجاتا۔ اس لیے کہ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہوا کرتا تھا آپ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا کرتے تھے۔ اور محتاج لوگوں کی ضرورت پورا کرنے ؛ اور رات گئے آنے والے مہمانوں کی ضیافت کواپنے نفس پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جہادی لشکر کی تیاری میں بھی خرچ کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں کا بھی یہی عالم تھا۔ بلکہ اکثر صحابہ کرام اسی مبارک اخلاق سے بہرہ ور تھے۔ مہاجرین و انصار میں سے وسعت دست والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عزت و اکرام اور آپ کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور آپ کے لیے تحفے تحائف بھیجتے رہنے کے باوجود بعض اوقات آپ کی حاجات کے متعلق ادراک نہ کرسکتے تھے۔ اور بسا اوقات آپ کی ضروریات کا علم آپ کے ایثار کی وجہ سے بھی نہ ہوسکتا تھا۔ اور ایسا بھی ہوتا تھا کہ اگر کسی صحابی کو علم تو ہوجاتا مگر وہ خود بھی تنگ دست ہوتا،اس لیے وہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت پوری کرنے میں معذور ہوتا۔ جیسا کہ اس واقعہ میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہوا ہے۔بہر حال کسی بھی صحابی کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت کے بارے میں خبر ہوئی ہو، وہ اس ضرورت کے پورا کرنے پر قادر بھی ہو،اور پھر وہ اس سے پیچھے رہ جائے۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے صحابہ سے اپنی ضرورت کو چھپایا کرتے تھے تاکہ آپ خود مشقت برداشت کرلیں اور اپنے ساتھیوں پر بوجھ نہ بنیں ۔ جیسا کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے قصہ سے ظاہر ہے۔انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز مبارک سنی تو اس میں بھوک کے آثار کو محسوس کیا۔ اور آپ جلدی سے اس کے حل کی طرف چل پڑے۔ صحابہ کرام تو آپس میں ایک دوسرے کو اپنی ذات پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنے کسی ساتھی کی ضرورت کے متعلق علم ہوجاتا تو اس کو پورا کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کی یہ صفت بیان کی ہے :