کتاب: صحابہ کرام اور عقیدہ اہل سنت والجماعت - صفحہ 65
وحی سے ثابت ہو سکتی ہے ۔ اور بیشک اس میں قرابت کا بھی تعلق ہے ۔ اور تقیہ کرنے کی صورت میں امام کے لیے جائز ہے کہ وہ کہہ دے : میں امام نہیں ہوں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ امام صرف لوگوں میں افضل ترین انسان ہوسکتا ہے۔ اور ان کایہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ ہر حال میں حق پر تھے۔‘‘ [1] رافضیوں کا بڑا محقق عالم اور ان کا مجتہد محمد نعمان المفید (متوفی ۴۱۳ھ) کہتا ہے : ’’امامیہ کا بہت سارے مردوں کے قیامت کے دن سے پہلے اس دنیا میں لوٹ کر آنے کے واجب ہونے پر اتفاق ہے ۔ اگرچہ ان کے درمیان بعض کی رجعت پر اختلاف ہے ۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ ِ ’’بداء‘‘ کے اطلاق پر بھی اتفاق ہے‘ نقلی دلائل کی روشنی میں ‘ قیاساً نہیں ۔ اور اس بات پر اتفاق ہے کہ آئمہ ضلالت وگمراہی نے قرآن کے لکھنے میں بہت اختلاف کیا ہے ‘ اور بہت ساری چیزوں میں وحی کے موجب سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ گئے تھے۔‘‘ اور معتزلہ ‘ خوارج ؛ زیدیہ ‘ مرجئہ ‘اور اصحاب حدیث کا ان تمام امور میں جو ہم نے گنے ہیں ‘ امامہ کے عقیدہ خلاف اجماع ہے ۔‘‘[2] رافضی صحابہ کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ:’’ تمام صحابہ گمراہ اور کافر
[1] مقالات الاسلامیین ۱/۸۹۔ [2] أوائل المقالات للمفید ۴۸۔۴۹۔