کتاب: صحابہ کرام اور عقیدہ اہل سنت والجماعت - صفحہ 45
کی ہے کہ : ’’عادل امام پانچ ہیں : ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ،، [ اس روایت ]کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟۔ تو آپ نے فرمایا : یہ باطل ہے یعنی سفیان کا دعوی باطل ہے۔ پھر آپ نے فرمایا : کوئی بھی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہیں ہوسکتا۔اورنہ ہی کوئی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوسکتا ہے ۔‘‘[1] امام خلال رحمۃ اللہ علیہ نے اعمش رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے ،وہ کہتے ہیں : ’’ انہوں نے ان کے سامنے عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کیا اور انہیں عادل کہا۔ تو اعمش نے فرمایا:اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کوپالیتے توکیسے ہوتا ؟۔ کہنے لگے : اے ابو محمد ! یعنی ان کے حلم میں ؟ (آپ کی کیا مراد ہے ) ۔ فرمایا: نہیں اللہ کی قسم ! بلکہ ان کے عدل میں ۔‘‘[2] یہاں سے ان لوگوں کی غلطی معلوم ہوجاتی ہے جو تابعین میں سے کسی ایک کو صحابہ میں سے کسی ایک پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے برابر کوئی نہیں ہوسکتا ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کواپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے چن لیا تھا ۔ واللہ تعالیٰ أعلم
[1] السنۃ ۱/۴۳۶۔ [2] السنۃ ۴۳۷۔