کتاب: صحابہ کرام اور عقیدہ اہل سنت والجماعت - صفحہ 40
کے بارے میں سوال کیا جو کہتا ہے : ’’پہلے ابو بکر پھر عمر پھر علی اور پھر عثمان رضی اللہ عنہم ؟۔ آپ نے فرمایا : یہ بات مجھے اچھی نہیں لگتی ۔میں نے کہا : کیا یہ کہا جاسکتاہے کہ وہ مبتدع ہے ؟۔ تو فرمایا : میں اس بات کو مکروہ سمجھتا ہوں کہ اسے سخت بدعت کی طرف منسوب کیا جائے ۔‘‘[1] اس مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کا قول جس طرف رجحان رکھتا ہے ، وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پرمقدم سمجھنا [افضلیت دینا ]ہے ۔اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں خلافت میں ترجیح دی ہے ۔اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فرمان کی وجہ سے ؛ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے فرمایا: ’’ ہم پر باقی رہ جانے والوں میں سے سب سے بہترین آدمی کوامیر بنایا گیا ،اور ہم نے اس میں کوئی کمی نہیں کی ۔‘‘[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فضیلت میں خلفاء کی ترتیب ذکر کرنے کے بعد؛ کہ خلفاء کی خلافت میں ترتیب ان کے فضائل میں ترتیب کے اعتبار سے ہے ؛ لکھتے ہیں : ’’اورجیسے بیعت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ترجیح دینے پر صحابہ کا اجماع ہے ۔ حالانکہ بعض اہل سنت کا حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں اختلاف
[1] السنۃ لخلال ۳۷۸۔ [2] السنۃ لخلال ۳۸۴۔