کتاب: صحابہ کرام اور عقیدہ اہل سنت والجماعت - صفحہ 34
ان کے فضائل اور مراتب کے اثبات کے لیے ان کے ایمان و تقوی کے احوال کی معرفت حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اورجب کہ ان امور کے حقائق کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا؛وہی ہے جو دلوں کے اسراروں کو جانتا ہے، اورجس نے دل میں تقوی اور ایمان کی معرفت کواپنے لیے خاص کر لیا ہے ، اس کی طرف خبر دیے جانے کے بغیریہ معرفت ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ﴾۔[تغابن ۴۔] ’’جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے وہ(سب) جانتاہے اور جو تم چھپاتے ہو اورجو کھولتے ہو اس کو بھی جانتاہے اور اللہ تعالیٰ تو سینوں کی بات جانتاہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْہَرُوْا بِہٖ اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾۔[ملک ۱۳۔] ’’اور (لوگو)تم اپنی بات چپکے سے کہو یا پکار کر کہو وہ تو سینوں تک کے خیال جانتا ہے ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ سلف ِ صالحین امت ایسے امور میں نصوص شریعت کے پاس ٹھہر جاتے تھے اوران سے آگے کسی اور چیز کی طرف نہیں بڑھتے تھے۔تبھی تو اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان باتوں سے محفوظ رہے جن کا شکار حق سے انحراف کرنے