کتاب: صحابہ کرام اور عقیدہ اہل سنت والجماعت - صفحہ 29
میں بذات خود موجود ہو ۔ اگر کسی انسان نے کسی نیک انسان کے بارے میں اعتقاد رکھا کہ وہ انبیاء میں سے ایک نبی ہے ، یا یہ اعتقاد رکھا کہ وہ سابقین اولین میں سے ہے ، اور پھر اس سے محبت کی ؛ تو یقیناً اس نے ایسی چیز سے محبت کی جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس نے کسی شخص سے اس بنیاد پر محبت کی ہے کہ وہ ان صفات سے موصوف ہے ؛ اور یہ صفات باطل[موجود نہیں ] ہیں ۔تو یقیناً اس نے معدوم [غیر موجود ] سے محبت کی ہے ، موجود سے نہیں ۔ اس کی مثال ایسے ہے : جیسے کوئی کسی ایسی عورت سے شادی کرے جس کے بارے میں وہ گمان رکھتا ہوکہ وہ بہت مالدار اورخوبصورت اوردین دار اور حسب نسب والی ہے ۔ پھر اس سے محبت کرنے لگے۔ پھر اس کے لیے واضح ہوکہ وہ جو کچھ اس عورت کے بارے میں گمان کرتا تھا ؛ وہ اس سے بہت ہی کم ہے[یا پھر اس میں یہ چیزیں سرے سے پائی ہی نہیں جاتیں ] ۔ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنا اس کے اس گمان میں کمی آئے گی؛ اتنا ہی اس کی محبت میں بھی کمی آئے گی۔اس لیے کہ جب حکم کسی علت کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے تو اس علت کے ختم ہونے پر وہ حکم بھی ختم ہوجاتا ہے ۔
آگے چل کر آپ فرماتے ہیں :
’’اورایسے ہی جو کوئی صحابہ اور تابعین اور صالحین سے ؛ان کے بارے میں کوئی باطل اعتقاد رکھتے ہوئے محبت کرتا ہے ، تو اس کی محبت اس