کتاب: سفر آخرت - صفحہ 31
دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے ان کے متعلق کچھ سنا ہے اورنہ کسی انسان کے دل پر ان کا خیال گزرا ہے۔
((یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِی الصّٰلِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَاتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ))[1]
پھر جمال جہاں آرا (خالق حقیقی) کا دیدار مزید برآں ہو گا، وَرِضْوَانٌ مِنَ اللّٰہِ اَکْبَرْ۔ میں اسی بے مثال نعمت عظمیٰ کا ذکر ہے۔ جیسے نیر تاباں دنیا کے منطقہ سے جب اوجھل ہوتا ہے تو وہ فنانہیں ہو جاتا بلکہ ٹھیک اسی آن میں دنیا کے کسی دوسرے منطقے (علاقہ) میں طلوع ہو کر اپنی تابانیاں بکھیر رہا ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح مومن آدمی فوت ہو کر ابد الآباد کے لیے فنا اور برباد نہیں ہو جاتا بلکہ عالم برزخ سے ہوتاہوا عالم آخرت (دارالبقاء) کا مکیں ہو جاتا ہے، لہٰذا فنا کیسی اور اس کا خطرہ کیسا؟ سچ ہے۔
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مومن آدمی جب تک اس دنیا میں رہتا ہے اپنے آپ کو غریب الوطن اور پابہ رکاب مسافر سمجھتا ہے اور دنیا کی سختیوں اور صعوبتوں کو بڑے صبر و سکون اور جی داری کے ساتھ جھیلتا رہتا ہے جونہی اس کی غریب الوطنی اور سفر مکمل ہوجاتا ہے تو بذریعہ موت اپنے دائمی وطن اور اصلی گھر کی طرف چل دیتا ہے۔ صَدَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :
((کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ))[2]
’’دنیا کی زندگی پردیسی بن کر یا پھر راہ چلتامسافر بن کر پوری کرو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ موت مومن کے لیے سراپا رحمت ہوتی ہے کیونکہ مومن موت کے ذریعے سے دنیا کی مشقتوں اور کلفتوں سے نجات پالیتا ہے:
[1] صحیح البخاری، ج:۲، ص: ۷۰۴۔ تفسیر الم السجدۃ۔
[2] مشکوٰۃ، ص: ۱۳۹ و ۴۵۰۔