کتاب: سفر آخرت - صفحہ 30
مومن جب اس دار فانی سے کوچ کرتا ہے تو ایک ہی زقند سے عالم برزخ میں فروکش ہو جاتا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ((قَالَ شَیْخُنَا اَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ اِنَّ الْمَوْتَ لَیْسَ بِعَدْمٍ مَحْضٍ وَاِنَّمَا ہُوَ اِنْتِقَالٌ مِنْ حَالٍ اِلٰی حَالٍ وَیَدُلُّ عَلٰی ذَالِکَ اِنَّ الشُّہَدَآئَ بَعْدَ قَتْلِھِمْ وَمَوْتِھِمْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ))(کتاب الروح، ص: ۴۳) ’’ہمارے شیخ احمد بن عمر نے فرمایا: موت عدم محض نہیں بلکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے کا نام موت ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ شہداء اپنے قتل اور موت کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور اپنے رب تعالیٰ کے ہاں رزق دیے جاتے ہیں ۔‘‘ عالم برزخ میں اس کے وارے نیارے ہوتے ہیں قبر میں منکر نکیر سے ہلکی پھلکی ملاقات کے بعد دلہن کی طرح خواب استراحت کے مزے لوٹتا ہے جیسا کہ ’’نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعُرُوْسِ‘‘ کے مژدہ جانفزا سے یہ حقیقت صاف عیاں ہے۔ (مشکوٰۃ ص: ۲۵) پھر بعث بعد الموت(حشر ونشر) کے دن کی آمد پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی کے بعد جنت کا مکین بن جاتا ہے جنت کی ابدی زندگی کس قدر اعلیٰ اور پر کیف ہو گی؟ زبان اس کے بیان سے قاصر ہے اور قلم اس کے لکھنے سے عاجز! کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دیا ہے: ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ،﴾ (السجدۃ: ۱۷) ’’کوئی نفس متنفس نہیں جانتا کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان نعمتوں کے بارے میں صرف اتنا ہی فرمایا ہے کہ جنت میں مومن کے لیے جو نعمتیں تیار فرمائی گئی ہیں وہ ایسی اعلیٰ اور اچھوتی ہیں کہ کسی آنکھ نے ان کو