کتاب: سفر آخرت - صفحہ 29
بھی عقیدہ ہے کہ اصلی اور دائمی زندگی عالم آخرت (دارالبقا) ہی کی زندگی ہے اور:
﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ،﴾ (العنکبوت: ۵۷)
’’ہر نفس کے لیے موت ہے پھر ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
کا مجھے بہر حال سامنا کرنا ہے اس لیے وہ اس کافر اورملحد کی طرح اپنے لیے موت کو گالی سمجھتا ہے، اور نہ اپنے لیے اس کو ہلاکت کا دیو اور خون خوار درندہ تصور کرتا ہے بلکہ اس کی تیاری میں لگارہتا ہے اوربحکم:
﴿وَ مَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّ لَعِبٌ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ،﴾ (العنکبوت: ۶۴)
’’اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اورتماشا ہے، اور ہمیشہ کی زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے کاش یہ لوگ سمجھتے۔ اس لیے مسلمان شخص دنیا کو، اس کی تمام رعنائیوں اور دلفریبیوں کو اور اس کی جملہ آسودگیوں اورمسرتوں کو ایک جھوٹا بہلاوا اور وقتی کھیل کود سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں دیتا۔‘‘
مومن انسان جب تک اس عالم رنگ و بو میں آباد رہتاہے، تو نہ صرف دین اسلام کے نور سے اپنے تئیں منور رکھتا ہے اور اخلاص و عمل صالح کا سراپا بنا رہتا ہے۔ بلکہ بحکم:
﴿وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ،﴾ (الشعرآء: ۲۱۴)
’’اور اپنے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو۔‘‘
اپنے اخلاص و عمل کی ضیاء پاشیوں سے اپنے قرب و جوار کو بھی جگمگائے رکھتا ہے۔ کفر والحاد کے خوگر انسانوں کو خدا پرست اور متبع سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنانے میں جتا رہتاہے، تقلید اور بدعت کی بھول بھلیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں کو تمسک بالکتاب والسنۃ کی تلقین کرتا رہتا ہے، تشکیک و زندقہ کے اسیروں کو رشد و ہدایت کی شاہراہ مستقیم دکھاتا رہتا ہے اور جہالت کی تاریکیوں میں ٹھوکریں کھانے والوں کو علم و عرفان کے اجالے فراہم کرتا رہتا ہے۔