کتاب: سفر آخرت - صفحہ 19
تقریظ
قرآن و حدیث میں ایک مسلمان کو جس طرح زندگی کے ہر ہر مرحلہ پر راہنمائی دی گئی ہے۔ اسی طرح ماتم کے بارے میں بھی بتا دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان کے مر جانے کے بعد زندوں اور پسماندگان پر کیا کیا فرائض عائد ہوتے ہیں ان کو کیا کچھ کرنا اور کن کن باتوں سے بچنا چاہیے۔ چنانچہ حالت مرگ تجہیز و تکفین، غسل، نمازجنازہ، قبر تدفین اور اس کے بعد کے لیے شریعت محمدیہ (علی صاحبہا الف الف سلام وتحیۃ) میں تفصیلی ہدایات دے دی گئی ہیں ۔ جن کا معلوم ہونا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں نہ مارتا پھرے۔ مگر افسوس! اس طرف سے عموماً بے توجہی اور لا پرواہی بڑھتی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ناواقفیت کے سبب مشروع و مسنون احکام تو ہو نہیں پاتے لیکن اس کی جگہ شرکیہ عادات، قبیح رواج و رسومات اور قسم قسم کی بدعات نے لے رکھی ہے۔ جو ایسی رچ بس رہی ہیں کہ شرعی احکام کو نظر تعجب بلکہ حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔
بنا بریں سنت رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کے داعی اور دینی غیرت کے حامل علمائے کرام ’’شَکَرَ اللّٰہُ مَسَاعِیْھِمْ‘‘ نے اس غلط صورتِ حال کا ہمیشہ نوٹس لیا اور اس معاشرتی روگ کی تشخیص اور علاج کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہے جیسا کہ اُن کی تالیفات اور تحریرات سے ظاہر ہوتا ہے جو ہر دور میں اصلاحِ عوام کے لیے لکھی گئیں ۔
برصغیر ہندو پاک میں جس تحریک نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بعد اصلاح امت کا بیڑا اٹھایا اُن کے پروگرام میں یہ بھی تھا کہ ماتمی رسم و رواج، بدعات اور شرکیہ عقائد و اعمال کی دلدل سے مسلمان عوام کو نکالنے اورمسائل صحیح شرعیہ کی تعلیم عام کرنے کا اہتمام کیا جائے چنانچہ اگر ایک طرف مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کی ’’اربعین مسائل ومأۃ