کتاب: سفر آخرت - صفحہ 143
نماز جنازہ کے بعد دعا
علامہ ابن نحیم کا فتویٰ:
متاخرین علمائے احناف نے انہیں ابو حنیفہ ثانی کے بلند لقب سے یاد کیا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں :
((قَیَّدَ بِقَوْلِہٖ بَعْدَ الثَّالِثَۃِ لِاَنَّہٗ لَا یَدْعُوْ بَعْدَ التَّسْلِیْمِ کَمَا فِی الْخُلَاصَۃِ وَعَنِ الْفَضْلِ لَا بَاْسَ بِہٖ))[1]
صاحب کنز الدقائق نے دعا کو تیسری تکبیر کے بعد کے ساتھ مقید کر دیا۔ تاہم سلام کے بعد دعا نہ کی۔ تاہم فقیہ فضل نائبادی کے نزدیک جائز ہے۔
ملا علی قاری حنفی کا فتویٰ:
((وَلَا یَدْعُوْ لِلْمَیِّتِ بَعْدَ صَلٰوۃِ الْجَنَازَۃِ لِاَنَّہٗ یَشْبَہُ الزَّیَادَۃَ فِی صَلٰوۃِ الْجَنَازَۃِ))[2]
یعنی نماز جنازہ کے بعدمیت کے لیے دعا نہ کریں کیونکہ یہ دعا نمازجنازہ میں زیادتی کرنے کے مشابہ ہے۔ علاوہ ازیں محیط فتاویٰ برہنہ مظاہر حق اورمالکیوں کی کتاب[3] میں بھی اس کو بدعت قرار دیا گیاہے۔
مجدد الف ثانی کے فرزند کا عمل و فتویٰ:
’’مخدوم زادہ بزرگ خواجہ سعید امامت نماز جنازہ پیر و پدر بزرگوار خود نمودند وبعد از نماز برائے دعا توقف نہ فرمووند کہ مقتضامی سنت چنیں نیست و در کتب فقہ معتبرہ مرقوم است کہ
[1] دلیل الخیرات، ص: ۱۸۳،ج: ۲۔
[2] مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، ص: ۴۶، ج: ۴۔
[3] المدخل، ص: ۲۲، ج: ۳۔