کتاب: سفر آخرت - صفحہ 134
الْغَائِبِ فِیْ بَلَدٍ اٰخَرَ وَفِیْہِ اَقْوَالٌ تُشْرَعُ مُطْلَقًا سَوَآئٌ کَانَ الْمَیِّتُ فِیْ جِھَّۃِ الْقِبْلَۃِ اَوْ لَمْ تَکُنْ وَسَوَآئٌ کَانَ بَیْنَ الْبَلَدَیْنِ مُسَافَۃَ الْقَصْرِ اَوْ لَمْ تَکُنْ وَسَوَآئٌ کَانَ بِاَرْضٍ لَمْ یُصَلّٰی عَلَیْہِ فِیْہَا اَوْ کَانَ بِاَرْضٍ صُلِّیَ عَلَیْہِ فِیْہَا وَبِہٖ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَاَحْمَدُ وَجَمْہُوْرُ السَّلْفِ))[1]
حدیث ثانی:..... سیدنا معاویہ بن معاویہ لیثی کاجنازہ غائبانہ پڑھنا بھی روایات میں مذکور ہے۔ اگرچہ سند ضعیف ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ چونکہ اس قصہ کے کثیر طرق آتے ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں لہٰذا خبر حسن ہے۔
((وَقَدْ ذَکَرْتُ فِیْ تَرْجُمَتِہٖ فِی الصَّحَابَۃِ اَنَّ خَبْرَہٗ قَوِیٌّ بِالنَّظْرِ اِلٰی مَجْمُوْعِ طُرُقِہٖ))[2]
مانعین کے پاس تو ضعیف حدیث بھی موجود نہیں ہے۔
حدیث ثالث:.....
((عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ اَخْبَرَنِیْ اَبُوْبَکْرٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صَلّٰی عَلٰی اُمِّ کُلْثُوْمٍ اُخْتِ سَوْدَۃَ بِنْتِ زَمْعَۃَ وَتُوُفِّیَتْ بِمَکَّۃَ فَصَلّٰی عَلَیْہَا بِالْبَقِیْعِ الْمُصَلّٰی وَکَبَّرَ عَلَیْہَا اَرْبَعًا))[3]
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ کی بہن ام کلثوم رضی اللہ عنہا یعنی اپنی سالی پر جو کہ مکہ میں فوت ہوئی تھی مقام بقیع (مدینہ منورہ) میں نمازجنازہ پڑھی اور اس پر چار تکبیریں کہی تھیں ۔
الشیخ محمد بن محمد المعروف نظام الدین اولیاء المتوفی ۷۲۵ھ حنفی کی رائے:
((وَکَانَ رَحِمَہُ اللّٰہُ یَجُوْزُ صَلٰوۃُ الْجَنَازَۃِ عَلَی الْغَائِبِ وَیَسْتَدِلُّ
[1] مرعاۃ شرح مشکوٰۃ، ص: ۴۷۵، ج: ۲۔
[2] فتح الباری، ص: ۱۵۱، ج: ۳۔ باب صفوف علی الجنازۃ۔
[3] مصنف عبدالرزاق، ص: ۴۸۳، ج: ۳۔