کتاب: سفر آخرت - صفحہ 132
غائبانہ نمازجنازہ جس طرح حاضر موجود میت پر نماز جنازہ پڑھنی مسنون ہے اسی طرح غیر موجود میت پر نماز جنازہ پڑھنی مسنون ہے۔ چنانچہ صحاح ستہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَعٰی لِلنَّاسِ النَّجَاشِیِّ الْیَوْمَ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ فَخَرَجَ بِہِمْ اِلَی الْمُصَلّٰی فَصَفَّ بِہِمْ وَکَبَّرَ اَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ))[1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اصحمہ نجاشی (بادشاہ حبشہ) کے فوت ہونے کی خبر اسی دن دی جس دن فوت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر جناز گاہ تشریف لائے اور صفیں باندھ کر چار تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔‘‘ موطا امام مالک میں اس حدیث کے پہلے باب کا عنوان اس طرح ہے: ((اَنْ یَّتَقَدَّمَ الْاِمَامُ وَیَصُفُّ النَّاسُ خَلْفَہٗ وَیُکَبِّرُوْنَ اَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ وَلَوْ عَلَی الْقَبْرِ اَوِ الْغَائِبِ))[2] ’’نماز جنازہ میں امام آگے کھڑا ہو اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے صفیں باندھیں اور چار تکبیریں کہیں اگرچہ (یہ نماز جنازہ) قبر پر یا غائب پر ہو۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَلَا بَاْسَ اَنْ یُصَلّٰی عَلَی الْمَیِّتِ بِالنِّیَّۃِ فَقَدْ فَعَلَ ذَالِکَ رسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِالنَّجَاشِیِّ وَصَلَّی عَلَیْہِ بِالنِّیَّۃِ))[3]
[1] صحیح بخاری، ص: ۱۷۸، ج: ۱۔ باب التکبیر علی الجنازۃ اربعا، صحیح مسلم، ص: ۳۰۹، ج: ۱۔ تحفۃ الاحوذی، ص: ۱۴۰، ج: ۲۔ عون المعبود شرح ابی داؤد، ص: ۱۹۷، ج: ۳۔ موطا امام مالک، ص: ۲۰۸۔ نسائی، ص: ۲۱۶، ج: ۱۔ [2] مصفٰی شرح موطا ولی اللّٰہ، ص: ۱۹۹،ج: ۱۔ [3] کتاب الام، ص: ۲۴۰، ج: ۱۔