کتاب: سفر آخرت - صفحہ 119
حنفی فقہ کے نامور متن وقایہ میں ہے: ((وَلَا قِرَائَ ۃَ فِیْھَا خِلَافً لِلشَّافِعِیِّ)) اور حاشیہ عمدۃ الرعایۃ میں ابو الحسنات عبدالحئی حنفی لکھتے ہیں : ((وَقَوْلُہٗ لَا قِرَائَ ۃَ اَیْ تَجِبُ وَلَا تَسُنُّ عِنْدَنَا قِرَائَ ۃَ الْقُرْاٰنِ فِیْہَا اَیْ بِنِیَّۃِ الْقُرْاٰنِ فَلَوْ قَرَأَ الْفَاتِحَۃَ بِنِیَّۃِ الثَّنَائِ جَازَ کَذَا فِی الْاَشْبَاہِ))[1] یعنی مصنف کے قول ((وَلَا قِرَائَۃَ فِیْھَا)) کا مطلب یہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور اس کے بعد کوئی اور سورۃ حنفیہ کے نزدیک واجب ہے نہ سنت ہاں بطور ثنا جائز ہے۔ احادیث صحیح مرفوعہ: مگر حنفیہ کا یہ قول احادیث صحیح مرفوعہ کے خلاف ہے جو درج ذیل ہیں : ((عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَقَالَ لِتَعْلَمُوْا اَنَّہَا سُنَّۃً))[2] سنن نسائی کے الفاظ یوں ہیں : ((صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْن عَبَّاسٍ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَسَمِعْتُہٗ یَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَلَمَّا انْصَرَفَ اَخَذْتُ بِیَدِہٖ فَسَاَلْتُہٗ فَقُلْتُ تَقْرَأُ قَالَ نَعَمْ اَنَّہٗ حَقَّ سُنَّۃٌ))[3] سیدنا طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو انہوں نے نمازجنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھی اور سلام کے بعد فرمایا کہ میں نے سورۃ فاتحہ یہ جتلانے کے لیے پڑھی ہے کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قرأۃ سنت
[1] شرح وقایہ حاشیہ، ص: ۲۵۳، ج: ۱۔ [2] صحیح بخاری، ص: ۱۷۸، ج: ۱۔ باب قراء ۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ۔ [3] سنن نسائی مع التعلیقات السلفیۃ، ص: ۱۲۸، ج: ۱۔ باب الدعاء قال الشوکانی رواہ البخاری و ابو داؤد والترمذی و صححۃ نیل الاوطار، ص: ۶۸، ج:۴۔