کتاب: صدارتی خطبات(رحمانی) - صفحہ 93
امام احمد بن حنبل کا مذکورہ جواب قرآن پاک کی اس آیات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے : [ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ][1] تمہیں جس مسئلہ کا علم نہ ہو اس کی بابت اہل ذکر( قرآن و حدیث والوں)سے پوچھا کرو ۔ اہل حدیث کی ایک عظیم فضیلت حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اہل حدیث کے مناقب و فضائل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : فرمان باری تعالیٰ:[يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍ بِـاِمَامِہِمْ۰ۚ ][2] (ترجمہ ) اس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے۔اہل حدیثوں کی اس سے بڑی کوئی فضیلت نہیں ہو سکتی ( کیونکہ دنیا کے ہر گروہ نے اپنی مرضی سے اپنا کوئی امام بنا رکھا ہے) اور اہل حدیث کے امام تو صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اہل حدیث کی منقبت میں ایک حدیث بعض علماء سلف سے منقول ہے ـ:اہل الحدیث کی منقبت و فضیلت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا میں داخل و شامل ہیں : [نضر اللہ امرأ سمع منا حدیثا فحفظہ حتی یبلغہ غیرہ۔۔۔۔۔][3] اے اللہ ! اس شخص کو رونق وتروتازگی عطا فرما جو ہماری کسی حدیث کو سن کر یاد کرلیتا ہے اور دوسروںتک پہنچا بھی دیتا ہے ۔
[1] النحل:۴۳ [2] الاسراء:۷۱ [3] ابوداؤد،الرقم:۳۶۶۲،ترمذی، الرقم:۲۶۵۶