کتاب: صدارتی خطبات(رحمانی) - صفحہ 42
پر پتھر باندھنے کے باوجود میدان جہاد میں زخموں سے چور اور خون میں لت پت ہونے کے باوجودرشتوں ناطو کے دین کی خاطر چھوٹنے اور ٹوٹنے کے باوجود زندگی اس قدر مطمئن اور پر سکون تھی کہ فرمایاکرتے تھے ۔ ’’اگر محلات کے اندر رہنے والے بادشاہ اور ان کی اولادیں ہمارے سکون کی ایک جھلک بھی ملا خطہ کر لیں تو سب کچھ چھوڑچھار کے اپنی فوجوں اور چمکدار تلواروں کے ساتھ ہمارا سکون چھیننے کے لیے ہم پر حملہ کر دیں۔‘‘ بھائیو اور دوستو ! مضمون کافی پھیلتا جارہاہے ۔ بہرحال میں نے اس مختصر سے خطبہ میں حدیث (فطوبیٰ للغربا) کو سامنے رکھتے ہوئے غرباء کا مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس پر فتن اور پرہنگام دور میں جبکہ ہر طرف قتل و غارت گری کابازار گرم ہے ۔ غیر شرعی افکا ر ، مغربی ثقافت اور سیاہ تہذیب کی یلغار ہے ایک ملحد حکومت قائم ہے اور مختلف طواغیت کی تبا ہ کن آندھیوں کے جھکڑچل رہے ہیں اپنے دین،عقیدہ ، منہج ، ثقافت اور کتاب و سنت کی امانت کو سینے سے لگائے رکھنا یہ غربا ء کا اصل کردار ہے ۔ اس کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں ۔ مال و وسائل سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ دنیوی حاجتوں اور حشمتوںکا خون ہوجائے ۔۔۔۔لیکن یہ سب کچھ اللہ کے دین کی خاطر برداشت کرلے ۔۔۔۔ آخر دنیا میں کیا رکھا ہے ۔ ایمان و عقیدے کی حلاوت و بشاشت جس دل میں رچ بس جاتی ہے اسے نہ دنیا کی چمک دمک متاثر کرتی ہے نہ دنیا والوں کے مظالم اس کا سر جھکا سکتے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے جادوگروں کا ایمان افروز واقعہ اس حقیقت پر شاہد