کتاب: صدارتی خطبات(رحمانی) - صفحہ 30
و منزلت تھی ۔ لوگ آپ کو صادق و امین کے لقب سے یاد کیا کر تے تھے بعض بڑے اہم اور کٹھن مواقع پرآپ کی رائے کو قبول کیاگیا اور یہ بات معروف اور معترف بہ تھی کہ تمام فضائلِ خیر اور اوصافِ حمیدہ میں پوری برادری کے اندر (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہم مثل و ہم مرتبہ کوئی نہیں ۔ لیکن جو نہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفاء پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت پیش کی تو غیر تو کیاخود آپ کی برادری نے آپ کی مخالفت کی ۔ آپ کے سگے چچا نے آپ کی بربادی و تباہی کی بد دعا کر ڈالی۔ یہ وہ غربت و اجنبیت ہے جو جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محض اللہ تعالیٰ کی توحید کی خاطر حاصل ہوئی۔ لیکن آپ کبیدہ خاطریا دل برداشتہ نہیں ہوئے تکلیفوں اوراذیتوں کو برداشت کیا لیکن دعوت کا سلسلہ جا ری رکھا ۔ ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہو گئی ۔ یہ جماعت بھی در حقیقت مختلف قوموں اور قبائل سے کٹ کر آئی تھی ۔اس جماعت نے اللہ کی توحید کی خاطر اپنا گھر بار ،آسائشیں ، لذتیں ، قرابتیں سب کچھ چھوڑ دیا ۔ جو کچھ عرصہ قبل معاشرے کا اہم کردار اور زمانے کی رونقوں کا مرکز تھے آج وہ محض اللہ کی توحید کی خاطر اس معاشرے میںاجنبی بن گئے۔چنانچہ ان چند اجنبی انسانوں پر تکلیفوں کے پہاڑ توڑ دیئے گئے: [وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللہِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ][1] ترجمہ:ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے جو غالب (اور) قابل ستائش ہے ۔ ایذاء رسانی کا سلسلہ ابو لہب کی بد دعا اور براہ راست ڈانٹ ڈپٹ سے شروع ہوا ۔ پھر مختلف الزام تراشیاں کی گئیں ۔ کبھی اکرم الخلائق جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومجنوں کہا
[1] البروج:۸