کتاب: صدارتی خطبات(رحمانی) - صفحہ 28
بردار کم ہوتے ہیں۔ ان احادیث کا ملخص یہ ہے کہ وہ غرباء جن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عظیم بشارتیں ذکر فرمائی ہیں وہ مندرجہ ذیل صفات کے حامل ہوتے ہیں ۔ 1 وہ اپنے قبیلوں ، برادریوں ، او ر گھر بار سے محض دین کی بنیاد پر الگ تھلگ ہوجاتے ہیں اور اس سلسلہ میں انہیں بڑی اذیتیں سہنا پڑتی ہیں ۔ لیکن دامن صبر ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ بلکہ یہ لوگ اپنی اس پر مشقت زندگی پر انتہا ئی پر سکون اور مطمئن نظر آتے ہیں اور توحید و سنت کی نعمتوں کو سینو پر سجائے انتہائی قابل فخر زندگی گذار کر اللہ تعالیٰ کی جوار رحمت میں پہنچ جاتے ہیں اب ان کے لیے کوئی د کھ اور تکلیف باقی نہیں رہی۔ [ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃً . فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ . وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ. ][1] ترجمہ:اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا ۔ 2دوسری صفت یہ ہے کہ وہ اصلاح کا کام کرتے رہتے ہیں کفر و شرک اور بدعات و رسومات کے خلاف ہمیشہ صف آراء رہتے ہیں اور کسی لمحہ دعوتی ذمہ داری سے غافل نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے دعوت و اصلاح ہر دور کی ضرورت ہے اور یہ انتہائی کٹھن اور صبر آزما کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں دعوت کو جہاد کبیر قرار دیا ہے کیونکہ داعی کو بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں بڑی بڑی آزمائشوں کا سامناکرنا پڑتاہے بعض اوقات جسمانی اذیتیں جھیلنی پڑتی ہیں اور بعض اوقات حکام اور طواغیت کی طرف سے مال و منصب اور کرسی اور عہدہ کی پیشکش ہوتی ہے اور ایک مخلص داعی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ان
[1] الفجر:۲۸-۳۰