کتاب: صدارتی خطبات(رحمانی) - صفحہ 26
معاشرے کے ساتھ نہیں بنتی۔ نہ وہ معاشرے کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہوتا ہے نہ معاشرہ اس کے ساتھ ۔ معاشرہ اسے تکلیفیں پہنچا تا ہے وہ برداشت کر تا ہے ۔بعض اوقات غربت و اجنبیت کا یہ دائرہ اور تنگ ہو جا تا ہے اور یہ شخص ا پنے ہی گھر کی چار دیواری میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتا ہے کہنے کو اس کی ماں بھی ہے ‘ باپ بھی ہے ‘ بھائی اور بہنیں بھی ہیں ۔ ایک گھر میں رہتے بھی ہیں ۔ مگر وہ بلکل اجنبی اور دھتکارہ ہواہے ۔ وجہ کیا ہے ؟
وجہ یہ ہے کہ وہ ان کی بد عقیدگی سے بیزار ہے ان کے شرک و بدعت سے ناراض ہے اس کی اپنے اہل خانہ سے نہیں بنتی ۔ لہٰذا وہ ان کے درمیان ایک چھت تلے رہتے ہوئے بھی محض اجنبی اور غریب ہے ان کے طعنے سہتا ہے گالیاں برداشت کرتا ہے ظلم و زیادتی قبول کر لیتا ہے مگر ان کے شرک و بدعت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتا ۔ بعض اوقات بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں فاقے برداشت کرنے پڑتے ہیں گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن ہونا پڑتا ہے مال و دولت اور جائیداد سے عاق ہونا پڑتا ہے دنیا کی سہو لتیں چھین لی جاتی ہیں مار کٹائی تک کی نوبت آجاتی ہے ۔ وہ اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قبول کر لیتا ہے یہ ہے وہ اجنبی اور غریب جس کو اس حدیث میں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی بشارتیں دے رہےہیں ۔ فطوبی للغرباء.
یعنی ان غرباء کے لیے بشارت ہے ۔
’’ غرباء‘‘ کا مفہوم و معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے :
صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :
(و من الغرباء یا رسول اللہ ؟)
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ غریب اور اجنبی لوگ کون ہے ؟