کتاب: صدارتی خطبات(رحمانی) - صفحہ 25
آزمائشوں میں ڈال کر ایمان پر ان کی استقامت و عزیمت کا امتحان لینا اللہ تعالیٰ کا وہ قانون ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ. وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ][1]
یعنی لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ایمان لانے کے بعد انہیں یوں چھوڑ دیا جائے گااور انہیں آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا ! ( نہیں نہیں) ہم ان سے پہلوں کو بھی آزمائش میں میں ڈال چکے ہیں پس اللہ تعالیٰ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اپنے دعوی ایمانی میں سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں ؟
بردران اسلام ! اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو آزما تا رہے گا، امتحان لیتا رہے گا۔
غربت اور اجنبیت کی آزمائش
ان آزمائشوں میں ایک آزمائش یہ بھی ہے جس کا اس حدیث میں ذکر ہوا ہے ،یعنی غربت اور اجنبیت کی آزمائش۔
غربت اور اجنبیت کی آزمائش سے کیا مراد ہے ؟
اس سے مراد مسلمان کا یہ احساس و ادراک ہے کہ وہ اس پورے معاشرے میں تنہا ہے ، اجنبی ہے،دھتکارہ ہوا ہے، مشرود ومطرود ہے، اس احساس کی وجہ یہ ہے کہ وہ توحید و سنت کے منہج کو سمجھ کر اپنا چکا ہے اور باقی معاشرہ اس منہج سے باغی ہے لہٰذا اب اس کی
[1] العنکبوت:۲،۳