کتاب: صدارتی خطبات(رحمانی) - صفحہ 22
خطبہ صدارت لکھنا انہی کا منصب اور ان ہی کے شایان شان تھا دوسری وجہ یہ تھی کہ مجھ جیسا ناکارہ انسان بھلا اس منصب کے اہل ہو سکتاہے؟ ہر گز نہیں!! واین الثری من الثریا ؟ اس منصب کی تفویض پر میں ان بزرگوں کا شکریہ ادا نہیں کروںگا البتہ یہ شکوہ کروںگا کہ ایک نااہل اور مجسمۂ تقصیر و خطا انسا ن کو ایک ایسے مقام پر بٹھادیا گیاہے جس کا وہ قطعا مستحق نہیں۔ امارت کا بارگراں یہی بات میں نے مجلس شوری کے اس اجلاس میں عرض کی تھی جس میں جمعیت اہلحدیث سندھ کی امارت کا بار گراں میرے سپرد کیا گیا تھا کہ بندہ میں اس منصب کو اٹھانے کی کوئی سکت اور اہلیت نہیں ہے میں نے کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ شاہ صاحب کا خلاء کوئی پر نہیں کر سکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ مجھ سے بہتر بہت سے بزرگ موجود ہیں جو علم ، عمل، تقوی اور بصیرت کے زیور سے آراستہ ہیں اور جماعت کی بہتر راہ نمائی کر سکتے ہیں لیکن میرے نہ چاہتے ہوئے بھی اس امانت کا بوجھ میرے ناتواںکاندھوں پر ڈال دیا گیا ۔ اب جبکہ یہ فیصلہ ہو ہی چکا تو میرے بھائیو ! اور بزرگو ! یہ بات بخوبی سن لیجئے کہ میں قدم قدم پر آپ کے تعاون کا محتاج ہوں آپ کی رفاقت ہی میرے اس سفر کو آسان بنا سکتی ہے آیئے دعا بھی کریں اور عزم بھی کریں کہ ہم باہم مل جل کرشاہ صاحب رحمہ اللہ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ پے درپے صدمات بردران اسلام ! دم تحریر میں ذاتی طور پر بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کا