کتاب: صدارتی خطبات(رحمانی) - صفحہ 202
حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر ایک سے بر اہ راست بغیر کسی ترجمان کے باتیں کرے گا ، اور یہ اہم ترین نکتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان :
[وَيَوْمَ يُنَادِيْہِمْ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِيْنَ][1] ( اللہ تعالیٰ لوگوں سے سوال کرے گا کہ تم نے میرے نبیوں کی دعوت کا کیا جواب دیا )
بہرحال یہ بات واضح ہوچکی کہ صراط مستقیم وحی الہٰی ہے ( اور وحی دو چیزوں سے عبارت ہے ایک قرآن دوسر ی حدیث ) یہ وحی بالکل واضح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’ قد ترکتکم علی البیضا ء‘‘[2]
یعنی جو راستہ میں نے تمہیں دیا ہے وہ بیضاء یعنی بالکل چمکدار اور روشن ہے جس میں اندھیرا اور تاریکی بالکل نہیں ، بڑا روشن راستہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
[وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ][3]
ترجمہ ( اور بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے ؟)
قرآن نصیحت ہے اور نصیحت آسان ہونی چاہئے ، ناصح نصیحت کرے ایسے پیرائے میں کہ منصوح کو کوئی بات پلے نہ پڑے ، تو یہ ناصح کا کمال ہے یا اس کا عیب ہے ؟ اللہ تعالیٰ
[1] القصص:۶۵
[2] مسنداحمد،الرقم:۱۷۲۷۲،ابن ماجہ،الرقم:۴۳
[3] القمر:۱۷