کتاب: صدارتی خطبات(رحمانی) - صفحہ 101
’’اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ۔۔۔الایۃ‘‘کے مقتضی پر خوب غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ایمان کی کس طرح نفی فرما رہا ہے جو اختلافی مسائل میں قرآن و حدیث کو اپنانے اور چمٹے رہنے کے بجائے اپنے ائمہ و اصحاب کے اقوال و فتاویٰ سے تعلق و تمسک قائم کر لیتے ہیں ، اورہمیشہ اس روشِ بد پر اَڑے رہتے ہیں۔ کبھی تو گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر سوچا جائے کہ اس غلط روی کی سزا کتنی بھیانک ہوگی ۔ ہم بڑے درددل اور اخلاص کے ساتھ ان لوگوں کو رجوع الی الکتاب والسنۃ یعنی اہل حدیث بننے کی دعوت دیتے ہیں جو اختلافی مسائل و امور میں اپنے اپنے ائمہ و قائدین و بزرگان دین کے اقوال پر اکتفاء کئے بیٹھے ہیں ۔
ورنہ تم سب کو معلوم ہونا چائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام امور کا قیامت کے دن فیصلہ فرما دینا ہے ، پھر کوئی سوچ یا ندامت کام نہیں آئے گی ۔
[يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّكْرٰى][1]
ترجمہ: اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر آج اس کے سمجھنے کا فائده کہاں؟
وہ یوم الحساب ہے ، دارالعمل نہیں ۔
فیصلہ بہرحال اللہ تعالیٰ کا ہی ہے
فیصلہ بہرحال اللہ تعالیٰ کا ہی ہے چاہے یہ حقیقت دنیا میں قبول کر لو اور اس میں فائدہ ہے ، اور چاہے یہا ں اپنی من مانیاں کرلو اور روز محشر تمام اولین و آخرین کے سامنے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرلو۔
فرمایا:[ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ] [2]
[1] الفجر:۲۳
[2] آل عمران:۵۵