کتاب: صبر جمیل - صفحہ 23
2 ’’شیطان بندے کا لشکری ہو۔‘‘ یہ بڑے گناہ گار بدعتی کا حال ہے۔ جیسا کہ شاعر کا شعر ہے : وَکُنْتُ إِمْرَأً مِنْ جُنْدِ إِبْلِیْسَ فَارْتَقَی بِيَ الْمَجَالُ حَتّٰی صَارَ إِبْلِیْسُ مِنْ جُنْدِيْ ’’میں ابلیس کا لشکری تھا، پھر میں نے ترقی کی حتیٰ کہ ابلیس میرا لشکری ہو گیا‘‘ اس حالت میں ابلیس اور اس کے حواری اس کے مطیع اور مددگار ہو جاتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی بدبختی ان پر غالب آگئی اور انھوں نے آخرت کو دنیا کے بدلے فروخت کر دیا، یہ اس حالت میں اس وجہ سے گئے کیونکہ یہ صبر سے عاری تھے۔‘‘ ایسے لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (أَلْعَاجِزُ مَنِ اتَّبَعَ نَفْسَہُ ھَوَا ھَا وَ تَمَنَّی عَلَی اللّٰہِ ) [1] ’’بے بس وہ ہے جس نے خود کو خواہشات کے پیچھے لگا لیا اور اللہ سے امیدیں وابستہ کر لیں۔‘‘ ان لوگوں کی مختلف اقسام ہیں، بعض وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے ہوتے ہیں، لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے والے ہوتے ہیں اور دین کے اندر خامی کی تلاش میں رہتے ہیں، تاکہ لوگوں کو دین سے روک سکیں، کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو پس پشت ڈالنے والے ہوتے ہیں اور صرف خواہشات کی پیروی کرنے والے ہوتے ہیں۔ بعض منافقین دورخے ہوتے ہیں، کچھ عشق مزاج اور ناچ گانے میں مشغول ہونے والے ہوتے ہیں اور کچھ کو جب سمجھایا جاتا ہے تو کہتے ہیں، ہمیں توبہ کا بڑا شوق ہے مگر ہمیں امید نہیں ہے کہ ہماری توبہ قبول ہوگی۔ بعض کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نماز اور روزے کا محتاج نہیں ہے اور مجھے امید نہیں ہے کہ میں اپنے عمل کی وجہ سے نجات پاؤں گا، اللہ بڑا معاف اور درگزر
[1] ۔ترمذي:2459،ابن ماجه،احمد۔