کتاب: صبر جمیل - صفحہ 22
مضبوط اور کمزور ہونے کے اعتبار سے صبر کی تقسیم
دین کے سبب کی بہ نسبت خواہش کے سبب صبر کی تین حالتیں ہیں:
پہلی حالت :… دین کی طرف دعوت دینے والی چیز کا غلبہ ہوتا ہے جو خواہشات کو فرار ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، یہ درجہ مسلسل صبر کے بعد حاصل ہوتا ہے اور اس مرتبے پر پہنچنے والے دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہوتے ہیں، انھی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا) (حم السجدہ : 30)
’’بیشک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے‘‘ انھیں کے بارے میں موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں :
(وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ) (حم السجدہ : 30۔31)
’’اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جاؤ جس کاتم وعدہ دیے جاتے تھے۔ ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔‘‘
یہی وہ لوگ ہیں جو صبر کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا ساتھ بھی حاصل کرتے ہیں اور اللہ کے راستے میں اس طرح جہاد کرتے ہیں جیسا کہ کرنے کا حق ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف انھی لوگوں کو ہدایت کے لیے چنا ہے۔
دوسری حالت:… خواہشات غالب ہوں اور دین پر آمادہ کرنے والی چیز بالکل معدوم ہو۔ بندہ شیطان اور اس کے حواریوں کا تابع دار ہو اور شیاطین اس سے جو چاہے کام لیں۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں :
1 ’’بندہ شیطان کا لشکری اور اس کا مطیع ہو۔‘‘ یہ کمزوری اور بے بسی کی حالت ہے۔