کتاب: صبر جمیل - صفحہ 17
کی مہار ہے۔ اگر سواری کی مہار نہ ہو تو سواری بے قابو ہوجاتی ہے اور جس طرف چاہے چلی جاتی ہے۔ جیسا کہ حجاج بن یوسف نے خطبہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اپنے نفسوں کی تربیت کرو کیونکہ یہ ہر برائی کا زینہ ہیں، اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے اپنے نفس کے لیے لگام بنائی اور اس لگام کے ذریعے سے اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں لگاتا ہے، صبر کرنے سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے صبر کرے (یعنی ان سے بچے)۔‘‘
نفس میں دو قوتیں ہوتی ہیں :
1 پیش قدمی کی قوت 2 دفاع کی قوت
پہلی قوت کو ان امور پر خرچ کرنا چاہیے جو اسے فائدہ دیں اور دوسری قوت کو نقصان دینے والی چیزوں سے دفاع پر خرچ کرنا چاہیے۔
بعض میں پیش قدمی کی (نیکیوں پر) طاقت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اس پر زیادہ ثابت قدم ہوتے ہیں اور مشکل سے مشکل نیکی پر عمل کرتے ہیں، لیکن ان میں ممنوعہ چیزوں سے پرہیز کرنے کی طاقت کم ہوتی ہے اور اس پر صبر نہیں کر پاتے، بعض میں مخالفت سے بچنے اور اس پر صبر کرنے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن میں دونوں پر صبر کرنے کی قوت نہیں ہوتی۔ ان میں سے بہترین وہ ہے جو ان دونوں پر صبر کرے۔ بہت سے لوگ قیام اللیل (رات کو نماز کے لیے کھڑے ہونا) کا بہت اہتمام کرتے ہیں، چاہے سردی ہو یا گرمی اور بعض روزوں کی مشقت پر بڑا صبر کرتے ہیں مگر غیر محرم کو دیکھنے میں صبر نہیں کرپاتے، بہت سے لوگ غیر محرم کو دیکھنے اور ان کی تصویریں وغیرہ دیکھنے پر صبر کرتے ہیں۔
بعض لوگ صبر کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’انسان خواہشات اور شہوت کی طرف دعوت دینے والی چیزوں کے مقابلے میں عقل اور دین کی راہ نمائی پر ثابت قدم رہے۔‘‘اس کا معنی یہ ہے کہ اس کا مزاج اس چیز کی دعوت دیتا ہے جو اسے پسند ہے جبکہ عقل اور دین اس سے منع کرتے ہیں، انسان کو چاہیے کہ اس باہمی کشمكش اور جنگ کے مقابلے میں عقل اور دین کو مزاج پر ترجیح دے جس کا محل انسان کا دل ہوتا ہے۔