کتاب: صبر جمیل - صفحہ 16
(إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّٰہِ ) (یوسف:86)
’’میں تو اپنی ظاہر ہوجانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں۔‘‘
(فَصَبْرٌ جَمِيلٌ) (يوسف:18) ’’سو (میرا کام) اچھا صبر ہے۔‘‘
ایوب علیہ السلام نے فرمایا:
(مَسَّنِيَ الضُّرُّ) (الانبياء:83)’’مجھے تکلیف پہنچی ہے۔‘‘
حالانکہ ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صابر قرار دیا ہے اور صبر کرنے والوں کے سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعا ہے:
(( اللّٰهُمَّ أَشْکُوْ إِلَیْکَ ضُعْفَ قُوَّتِيْ وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِيْ))
اور موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
(( أَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ إِلَیْکَ المشتکی ))
’’اے اللہ! تعریف تیرے ہی لیے ہے اور تجھ ہی سے شکوہ کرتا ہوں۔‘‘
2۔آزمائش میں مبتلا شخص کا زبان سے یا بزبان حال شکوہ کرنا :
یعنی زبان سے کلمات کے ذریعے شکوہ کرے یا اپنی کیفیت اور حالت سے واضح کرے کہ وہ شکوہ کر رہا ہے، یہ صبر کا متضاد اور اس کی ضد ہے، بلکہ صبر کو ختم کر دینے والا ہے۔
صبر اور جزع (بے قراری) دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اسی لیے یہ ایک دوسرے کے مقابلے میں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آیت مبارکہ میں جہنمیوں کا قول ہے:
(سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ) (ابراهيم:21)
’’ہم پر برابر ہے کہ ہم گھبرائیں یا ہم صبر کریں، ہمارے لیے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں۔‘‘
نفس انسان کی سواری ہے جس پر سوار ہو کر وہ جنت یا جہنم میں داخل ہوگا، اور صبر اس