کتاب: صبر جمیل - صفحہ 15
جائے، انسان دونوں حالتوں میں برابر نہیں رہ سکتا، جب کہ عافیت کا دامن صبر سے زیادہ کشادہ ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعا میں موجود ہے : ((إِنْ لَمْ یَکُنْ بِکَ غَضَبٌ عَلَيَّ فَلَا اُبَالِيْ وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ أَوْسَعُ لِيُ مِنْ ذُنُوْبِيْ)) ’’اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں، سوائے اس بات کے کہ تیری عافیت (درگزر) میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔‘‘ مذکورہ قول اس فرمان نبوی کے مخالف نہیں ہے۔ ((وَمَا أَعْطِیَ أَحَدٌ عَطَائً ضَیْراً وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ)) ’’کسی کو کوئی ایسا عطیہ نہیں دیا گیا جو صبر سے زیادہ کشادہ ہو، صبر کا دامن اس وقت سب سے زیادہ کشادہ ہوگا جب انسان پر آزمائش آچکی ہو ورنہ عفو و درگزر کا دامن سب سے زیادہ کشادہ ہے۔‘‘ ٭ ابو علی دقاق کہتے ہیں : ’’صبر یہ ہے کہ کوئی تقدیر پر اعتراض نہ کرے، البتہ جس سے تقدیر پر اعتراض نہ آئے تو ایسا شکوہ صبر کے منافی نہیں ہے۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرا) (ص : 44) ’’بے شک ہم نے اسے صابرپایا۔‘‘ حالانکہ دوسری جگہ ایوب علیہ السلام کا شکوہ موجودہے: (مَسَّنِيَ الضُّرُّ) (الانبیاء : 83) اے اللہ ’’مجھے تکلیف پہنچی ہے‘‘ البتہ بغیر شکوہ کے تکلیف کا اظہار کرنے کی دو اقسام ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ سے شکوہ : یہ صبر کے منافی نہیں ہے، جیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے فرمایا :