کتاب: صبر جمیل - صفحہ 14
صبر کی حقیقت (اقوال علماء کی روشنی میں) حقیقت میں صبر ایسے عمدہ اخلاق کا نام ہے جو انسان کو برے اور قابل اعتراض کاموں سے محفوظ رکھے، اور یہ انسان کے اندر ایسا ملکہ ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنے معاملات کی درستگی اور تدبیر کرتا ہے۔ ایک مرتبہ جنید بن محمد رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ صبر کسے کہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا : ’’منہ پر سلوٹ لائے بغیر کڑوی چیز کو پی جانا۔‘‘ صبر کی وضاحت کرتے ہوئے ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’مخالفت سے خود کو بچانا، آزمائش کے وقت غصے کو پر سکون رہتے ہوئے پی جانا اور غربت کے باوجود بے نیازی کا اظہار کرنا صبر کہلاتا ہے۔‘‘ کہا گیا ہے: ’’آزمائشوں میں مہذب اور باادب رہنا اور بغیر شکوہ کے آزمائش کی بھٹیوں میں بے نیاز ہونا ’’صبر‘‘ہے۔‘‘ ٭ ابوعثمان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:’’صابر وہ ہے جو زیادہ تکالیف اور مصائب کا خود کو عادی بنالے۔‘‘ ٭ جواص کا فرمان ہے : ’’کتاب و سنت پر ثابت قدم رہنے کا نام صبر ہے۔‘‘ ٭ رویم کا قول ہے : ’’صبر شکوہ کو چھوڑنے کا نام ہے۔‘‘ ٭ ابو محمد جریری کا قول ہے : ’’نعمت اور آزمائش دونوں میں دل یکجا طور پر پرسکون رہے۔‘‘ میں کہتا ہوں : یہ وہ صبر نہیں ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے، کیونکہ انسان طبعی طور پر دونوں حالتوں میں یکجا نہیں ہو سکتا۔ مقصود یہ ہے کہ بے صبری (بے قراری) کا مظاہرہ نہ کیا