کتاب: صبر جمیل - صفحہ 136
’’دنیا سے! یہ دنیا میرے سامنے انسانی شکل میں آئی، میں نے کہا: دور ہو جا، اس نے کہا آج تو مجھ سے بچ رہا ہے مگر تیرے بعد والے مجھ سے کیسے بچیں گے؟‘‘
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ : …جب کسریٰ کے خزانے آئے تو عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین! آپ رو رہے ہیں یہ تو خوشی اور شکر بجا لانے کا وقت ہے…! عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ دنیا کی چمک جس قوم میں داخل ہو جاتی ہے ان کے درمیان دشمنی اور عداوت کو جنم دیتی ہیں۔‘‘
ان کے دلائل میں سے ہے:
اگر امیری غربت سے افضل ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زہد کی ترغیب دیتے اور اس پر حرص کی مذمت کیوں فرماتے بلکہ یہ لاءق تھا کہ اس کے کمانے اور زیادہ حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے۔ جیسا کہ علم و عمل کے کمانے اور زیادہ لینے پر ترغیب دلائی گئی ہے، زہد اور کم مال کی ترغیب دلانا اس کی افضلیت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس کی حقیقت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے، یہ ملعون ہے اور مومن کے لیے قید خانہ ہے۔
ہر گناہ کی جڑ دنیا کی محبت ہے۔ اپنے والدین (آدم و حوا) کی کوتاہی نہ بھولیں اور اس کے ساتھ ساتھ جنت میں ہمیشہ رہنے کی خواہش اور ابلیس کا جرم بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ حکمرانی کی محبت جس کی محبت دنیا کی محبت سے بھی بری ہے، فرعون، ہامان اور ان کے لشکر کا یہی سبب تھا۔ دنیا کی محبت کا نشہ شراب کے نشے سے زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ جو دنیاوی محبت کے نشے میں مست ہوتے ہیں ان کو قبر تک افاقہ نہیں ہوتا۔
ان کے دلائل میں سے ہے:
دنیا کی محبت گناہوں کی بنیاد ہے اور کئی وجوہات کی بنا پر یہ دین کو تباہ کر دینے والی ہے:
1 دنیا سے محبت اس کی تعظیم کا تقاضا کرتی ہے، حالانکہ یہ اللہ کے ہاں حقیر ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ یہ ہے کہ جو اللہ کے ہاں حقیر ہے اس کی تعظیم کی جائے ۔
2 اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے اور نفرت، ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو لعنت کردہ