کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 87
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کوشش میں بہت آگے تھے،اس اعتبار سے آیت کامعنی یہ ہوگا کہ ہم کسی نبی یا رسول کو بھیجتے ہیں اور وہ اس طرح کی قابل قدر آرزو کرتاہے تو شیطان اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے،اس کو اس مقصد کے حصول سے روکنے کے لیے بھر پور کوشش کرتا ہے،اور لوگو ں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس نبی کی مخالفت پر اتر آتے ہیں پھر کبھی اس سے تیر و تفنگ سے مقابلہ کرتے ہیں تو کبھی بحث ومباحثہ کے ذریعہ،اور دعوت کے ابتدائی مراحل میں ان کو کسی طرح کا غلبہ اور برتری حاصل ہوجائے تو وہ اس زعم میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ حق انہیں کے ساتھ ہے،کبھی کبھی اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دیے رہتا ہے تو دل میں شک اور نفاق کی بیماری والے اس سے دھوکے میں آجاتے ہیں،لیکن جلدہی اللہ تعالیٰ شیطانی شبہات کو اکھاڑ پھینکتا ہے تو اہل علم سمجھ جاتے ہیں کہ رسولوں کا لایا ہوا دین ہی برحق ہے۔ اور اضواء البیان :۳ /۵۳۰ میں ہے کہ: ہماری سمجھ کے اعتبار سے درست بات یہ ہے کہ شیطان نبی کی قرا ء ت میں ایسے شکوک اور وسوسے ڈالتا ہے جو اس کو سچا ماننے اور قبول کرنے سے مانع بنتے ہیں جیسے شیطان کہتا ہے کہ یہ سب جادو ہے یا شعر ہے یایہ کہ گذری قوموں کے قصے ہیں،اور اللہ کی طرف ان کی جھوٹی نسبت کی گئی ہے،درحقیقت یہ اللہ کے پاس سے نازل شدہ نہیں ہیں،وغیرہ،پس اس طرح کی باتوں کو سن کر بدبخت لوگ شیطان کی بات میں آجاتے ہیں اور اس طرح شیطان ان کے لیے فتنہ اور آزمائش بن جاتا ہے،دوسری طرف ایمان اور علم والے شیطان کی تکذیب کرتے ہیں اور نبی کی حقانیت کا یقین رکھتے ہیں،اس کی تکذیب نہیں کرتے جیسا کہ شیطان وسوسہ دلاتا ہے،(انتہی مختصرا)(ص) ﴿وَأَنَّ اللّٰهَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ﴾ ای العاليعلی کل شیٔ بقدرتہ (۶۹۵ /۲۸۵) ٭ ’’علوّ‘‘ اللہ کی صفت ہے،قدرت کے ساتھ اس کو خاص نہیں کیا جائے گا۔(ص)