کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 80
وفی قراء ۃ :بلفظ الماضي (۵۹۹ /۲۳۹) ٭ یہ شاذ قراء ت ہے۔(حاشیۃ الجمل) ﴿قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ۔۔۔۔۔﴾ کما فی الحدیث۔۔۔الرشید الصبور،رواہ الترمذی(۶۰۱ /۲۳۹) ٭ ضعیف سنن الترمذی(۳۷۵۴)ص: ۴۵۵۔اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی بیان کیے گئے ہیں،اس کو امام نودی حسن نے کہا ہے،حدیث کے بعض طرق ثقہ ہیں،بعض طرق میں کچھعلتیں ہیں،جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض صحابہ اور دوسرے اہل علم کا اس میں ادراج ہے،جیساکہ ابن کثیر نے زہیر بن محمد سے بلا غا ذکر کیا ہے،اور اما م بغوی کہتے ہیں کہ یہ تمام اسماء کتاب اللہ اوراحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نصا ً یا دلالۃً ثابت ہیں۔(من حاشیۃ الاحسان بترتیب ابن حبان : ۸۰۸،بتصرف) ﴿وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ۔۔۔۔۔۔۔وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً﴾ وروی الامام أحمد۔۔۔۔شریک فی الملک۔۔۔ (۶۰۱ /۲۴۰) ٭ مسند احمد(۱۵۶۷۶)۳ / ۴۳۹ ٭ وألفتہ فی مدۃ قدر میعاد الکلیم (۶۰۲ /۲۴۰) ٭ یعنی چالیس دن میں،اس مدت میں مصنف کتاب کا مسودہ تیار کرکے فارغ ہوئے تھے،البتہ مسودہ سے اس کو نقل کرنے کا کام چھ صفر تک جاری رہا۔گویا نقل و تبییض میں چار یوم کم چار ماہ صرف ہوئے،جیسا کہ آگے آئے گا۔(ملاحظہ ہو حاشیۃ الجمل) ٭ ھذا ولم یکن قط فی خلدی أن اتعرض لذلک (۶۰۲ /۲۴۰) لذلک سے مراد امام محلی کی تفسیر کی تکمیل ہے۔ ٭ وقد أضرب عن ھذہ التکملۃ وأصلہا حسما (۶۰۲) ٭ ’’أضرب‘‘ کے بعد ’’حسما‘‘ اعرض اِعراضا کے معنی میں ہے،اور﴿وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہِ أعْمٰی۔۔﴾ آیت شریفہ کا اقتباس ہے۔